اعظم سواتی داد رسی کے لئے قلندر کے آستانے پر!

اعظم سواتی داد رسی کے لئے قلندر کے آستانے پر!
'بہت ظلم ہوا میرے ساتھ سرکار۔ انہوں نے میرے۔۔۔' سواتی کو قلندر نے ہاتھ کے اشارے سے روک دیا۔

'ساری کتھا اس ملک کے بچے بچے کو رٹی ہوئی ہے۔ تجھے ننگا کیا تیرے گھر میں بیوی، بیٹی، نواسیوں کے سامنے۔ تیری ننگی فلم بنائی گئی۔ تجھے مارا پیٹا گیا۔ یہ تھا فلم کا پہلا حصہ۔ اس کے بعد تو نے سیکوئل تیار کیا جس میں تیری اور تیری بیوی کی ننگی فلم تیری بیٹی کے سیل فون پر نامعلوم نمبر سے بھیجی گئی۔ تُو زندہ لاش ہے۔ ہر گھنٹے کے بعد مرتا ہے، پھر جیتا ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ باجوے اور چیف جسٹس سے انصاف مانگتا ہے۔ ٹھیک کہہ ریا ہوں نا؟ حالانکہ میں ٹی وی نہیں دیکھتا۔' قلندر سواتی سے مخاطب تھا۔

'جی سرکار۔' سواتی سر جھکاتے ہوئے بولا۔
'سرکار یہ کیوں ہو رہا ہے میرے ساتھ اور کون ہے اس کے پیچھے؟'

'سواتی میں بھی تیری طرح ایک گناہ گار انسان ہوں۔ بھلے دنیا مجھے قلندر مانے۔ پر اللہ کو تو سب معلوم ہے کس کی کیا حقیقت ہے۔ اس دنیا میں بڑے بڑے فرعون تجھ سے بھی زیادہ بے بس دیکھ چکا ہوں۔ مجھے معلوم ہے کون کرا رہا ہے یہ سب کچھ۔'

'کون حضور؟' سواتی نے تجسس بھرے لہجے میں پوچھا۔
'اللہ میاں کرا رہا ہے! روک سکتا ہے تو روک لے! ایک سافٹ ویئر ہے اس کے پاس جس کا نام ہے مکافات عمل۔ یہ بڑا زبردست پروگرام ہے۔ اسے اللہ میاں نے بے بس اور مظلوم users کے لئے پروگرام کیا ہے۔ جب یہ پروگرام سٹارٹ ہوتا ہے تو تاریخ کے فرعون، نمرود اور شداد، اور میرے تیرے وقت کے خدا؛ بھٹو، صدام، ضیاء اور مشرف لمحوں میں اپنی اوقات میں آ جاتے ہیں۔ تُو اس پروگرام کے رگڑے میں آ گیا ہے۔'

'پر میں نے کبھی خدا ہونے کا دعویٰ نہیں کیا!' سواتی بولا۔

'ابے کیا تُو نے مجھے کوئی ٹٹ پونجیا اینکر سمجھ رکھا ہے کہ جو بکواس تو کرے گا میں فوراً یقین کر لوں گا؟ ابے کریلے، ذرا آن کر ملٹی میڈیا۔' قلندر نے اپنے پریس سیکرٹری کو حکم دیا۔ کریلے کی وجہ شہرت اس کی شیریں زباں ہے جس کی بدولت یہ میڈیا گری کرتا ہے۔

بہت بڑی سکرین پر ایک خبر کا تراشہ نمودار ہوتا ہے جس کے مطابق سواتی کے فارم ہاؤس پر کسی غریب خانہ بدوش کی گائے ٹریسپاس ایسا ناقابل معافی جرم کر بیٹھتی ہے مگر سزا ملتی ہے اس خانہ بدوش کی فیملی کو۔ پانچ افراد پر سواتی کے محافظ تشدد کرتے ہیں۔ گائے بھی چھین لیتے ہیں۔ اس کے بعد ان پر ایف آئی آر کاٹی جاتی ہے اور انہیں زنداں خانے میں ڈال دیا جاتا ہے۔ سواتی آئی جی اسلام آباد کو فون کرتا ہے تاکہ مزید عزت افزائی کروا سکے ان غریبوں کی۔ آئی جی سے تاخیر ہو جاتی ہے فون اٹینڈ کرنے میں۔ سواتی پاٹے خان کو فون کرکے آئی جی کو کھڈے لائن لگوا دیتا ہے۔ اس وقت کا چیف جسٹس ثاقب نثار از خود نوٹس لے کر ایک جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم تشکیل دیتا ہے جو تحقیقات کرتی ہے اور سواتی کو طاقت کے غلط استعمال کا مجرم گردانتی ہے۔
سواتی سر جھکا لیتا ہے۔ قلندر کے آگے تاویلیں گھڑنے کی اس میں ہمت نہیں۔

'بد دعا لگ گئی تجھے سواتی ان مظلوموں کی! اللہ کی پکڑ میں آ گیا تُو۔ ابے کریلے، ذرا سینیٹر مشاہد اللہ والا کلپ تو چلا۔' کریلا حکم کی تعمیل کرتا ہے۔ مرحوم مشاہد اللہ چلّا چلّا کر سینیٹ میں کہہ رہا ہے:

'تم ہمیں جیلوں کی دھمکیاں دیتے ہو! ڈالو ہمیں۔ جس مرضی کو ڈالنا ہے ڈالو۔ لیکن تم لوگوں کے آنسو مجھے ابھی سے نظر آ رہے ہیں جس وقت تمہیں جیل جانا پڑے گا۔ آپ نے رونا ہے اور آپ کے آنسو پونچھنے والا کوئی نہ ہو گا پھر۔ ہم میں سے ہوگا کوئی۔ میں ہوں گا انشاء اللہ! پرویز رشید ہوگا۔ رضا ربانی ہوگا۔ یہ احسن ہوگا۔ مار کھائے ہوئے لوگ کسی کو تکلیف نہیں دیتے۔ ان کا کام ہی آنسو پونچھنا ہوتا ہے۔ وہ آنسو نکالتے نہیں ہیں۔ یہ سارے آنسو پونچھنے والے لوگ یہاں بیٹھے ہوئے ہیں۔ ابھی دیکھنا تماشہ کیا لگتا ہے تمہارے ساتھ! تمہیں اندازہ ہی نہیں ہے!'

'کچھ یاد آیا؟' قلندرکی آنکھوں میں آنسو تھے اور وہ پوچھ رہا تھا کچھ سواتی سے جس کا اس کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔

'کاش اپنا یہ دوست مشاہد آج زندہ ہوتا۔ تجھے پبلک میں دھاڑیں مار کر رونے نہ دیتا۔ اور یہ تُو کیا عورتوں کی طرح لائیو پریس کانفرنس میں ٹسوے بہانا شروع کر دیتا ہے؟ مرد بن مرد پرویز رشید کی طرح، جاوید ہاشمی کی طرح، آصف زرداری کی طرح، شاہد خاقان عباسی کی طرح۔ خونم خون کر دیا تھا انہیں، پر کوئی شکوہ نہ دیکھا ان کے لبوں پر۔ اور تو نوٹنکی کرتا پھر رہا ہے سارے جہاں میں ہمدردیاں سمیٹنے کے چکر میں۔ تجھ سے بڑا بے وقوف نہ دیکھا ہوگا کسی نے۔ اب بتلاتا ہوں تیری ہی بونگیاں تجھے ایک ایک کر کے۔ ذرا غور سے سنیو!' قلندر بولا۔

'تجھے کس الو کے پٹھے نے مشورہ دیا تھا کہ پریس کانفرنس کر اور سارے جہاں میں ڈھنڈورا پیٹ؟ ایک طرف تو تُو حوالے دیوے ہے قرآن و حدیث کے۔ تو کیا تجھے نہیں معلوم کہ حکم ہے پردہ رکھنے کا۔ اور تو میڈیا پبلسٹی کے چکر میں خود ہی اپنا پیٹ ننگا کرے جا رہا ہے۔ ووٹ بنک بڑھے گا نا؟ یہی سوچ کر کرتا ہے نا؟' قلندر بولا۔

'نہیں سرکار۔ قرآن مجید کی قسم ایسا ہرگز نہیں۔' سواتی اپنے ساتھ لائے ہوئے سبز غلاف میں لپٹے قرآن پر ہاتھ رکھ کر کہتا ہے۔'

'ابے بکواس بند کر۔ یہ ڈرامے بازیاں ٹاک شوز پر کیا کر۔ اپنی عبادات کا پرچار پریس کانفرنسوں میں کرتا پھرتا ہے کہ پانچ وقت نمازوں کے علاوہ تہجد بھی پڑھتا ہوں۔ ہے نا؟ ابے کریلے چلا تو ذرا اس کا ایک اور کلپ۔' پھر قلندر سواتی سے کہتا ہے: 'یہ اصلی کلپ ہیں تیرے۔ یہ کسی گیسٹ ہاؤس میں نہیں بنے۔ تیری ہی منافقت ہے ٹی وی چینلز پر۔'
اس کلپ میں سواتی نانی اور بلاول کو بدکردار کہہ رہا ہے۔

'کیا نمازی، پرہیز گار اور تہجد گزار تہمت لگاتے ہیں دوسروں پر؟ جب نانی کے ہوٹل پر فرشتوں نے اس کے کمرے کا دروازہ توڑ کر ہلا بولا تھا تو کیا تو نے اس وقت کوئی پریس کانفرنس کی تھی اس حرکت کی مذمت میں؟ ابے تیرے ہوتے تیرے مخالفین کو تجھے بدنام کرنے کی ضرورت نہیں۔ تو خود اپنی عزت کو بٹہ لگا رہا ہے وہ بھی لائیو! آج اگر تو پریس کانفرنس نہ کرتا تو کسی کو کچھ پتہ نہ لگتا کہ تیرے ساتھ مکافات عمل ہو رہا ہے۔ اللہ کی شان! نہ صرف تجھے اپنی چکی میں پیسا بلکہ تیری عقل بھی چھین لی اور تیری بے عزتی تیرے ہی ہاتھوں سارے جہاں میں کروا دی۔ اور میں پوچھتا ہوں کیا ضرورت تھی یہ سیکوئل منظر عام پر لانے کی۔ کوئی چار برس کا بچہ بھی اسے دیکھ کر بتا دیتا تجھے کہ یہ جعلی ہے۔ انتہائی نالائق ایڈیٹر کی جہالت کا منہ بولتا ثبوت۔ ایف آئی اے اور جس ایرے غیرے نے دیکھی یہی کہا کہ جعلی ہے۔ اور تو اس کا پرچار کرنے بیٹھ گیا۔ اب کون لے گا تجھے جیون میں سنجیدگی سے؟ اور تو عظمت ملاحظہ فرما اپنے ایف آئی اے کی۔ اس نے تیری پریس کانفرنس پر سو موٹو ایکشن لے کر اس وڈیو کا جس کی نہ تو نے درخواست دی نہ ایف آئی آردرج کروائی، فرانزک ٹیسٹ بھی کر ڈالا اور اسے جعلی قرار دے دیا۔ تیرا ہیرو پاٹے خان تو واویلا مچا رہا ہے کہ قاتلانہ حملے کی ایف آئی آر نہیں درج ہو رہی۔ اور تجھے ایف آئی اے بیٹھے بٹھائے انصاف فراہم کر دیتی ہے حالانکہ اس وقت تو پاور میں بھی نہیں۔ اور کیا چاہئیے تجھے؟ مگر تو اپنی قبر خود ہی کھودے جا رہا ہے۔ ایف آئی اے کہہ رہی ہے کہ جعلی ہے اور تو بضد ہے کہ اصلی ہے! واہ بھئی واہ۔ اپنی میرا سے ہی کوئی سبق سیکھتا۔ ساری دنیا بشمول ایف بی آئی نے کنفرم کر دیا کہ اس کی ننگی وڈیو کیپٹن نوید کے ساتھ اصلی ہے مگر وہ آج تک نہیں مانتی۔ یہی مؤقف رکھے ہے کہ جعلی ہے۔' قلندر سواتی کے چہرے پر ایک رنگ آتے دوسرا جاتے دیکھتا رہا۔

'سرکار پھر میں کیا کروں؟' سواتی نے قلندر سے پوچھا۔

'ابے جو دس من کا پلستر پاٹے خان آج اپنی ایک اور کل دوسری ٹانگ پر بندھوا کر نوٹنکی کررہا ہے، تو اس کا آدھا اپنے منہ پر بندھوا اور پریس کانفرنس والا سیاپا بند کر۔ پھر ایوب سے کچھ سیکھ۔' قلندر بولا۔

'سرکار پورا قرآن مجید پڑھ رکھا ہے۔ صبر ہی کر رہا ہوں حضرت ایوبؑ کی تعلیمات پر عمل کرتے!' سواتی بولا۔

'ابے جنرل ایوب کی بات کر رہا ہوں۔' قلندر سر پیٹتے ہوئے بولا۔

'میں تو سویلین ہوں۔ جنرل ایوب سے کیا سبق سیکھوں؟' سواتی بولا۔

'جب ایوب کتا ہائے ہائے والا تان پلٹہ ہر سریلے اور بے سریلے، ہر لے کار اور بے تالے، ہر دھرپدیے اور خیالیے، ہر سرودیے اور ہر ستاریے، ہر سارنگیے اور ہر سنتوریے نے شروع کیا تو ایوب نے پریس کانفرنسوں کا فیسٹیول شروع نہیں کیا۔ خاموشی سے اقتدار سے الگ ہوا اور مرتے دم تک گوشہ نشین رہا۔ تیرے لیے بھی یہی مشورہ ہے۔' قلندر بولا۔

'مجھے پتہ ہے سرکار مگر پاٹے خان کا حکم ہے۔۔۔' سواتی پھر لگا دینے وضاحت۔ قلندر نے ہاتھ کے اشارے سے روکتے ہوئے کہا:

'ابے نادان تو بہت بڑا سیاست دان سمجھے ہے اپنے کو۔ اتنا بھی علم نہیں کہ تو استعمال ہو رہا ہے۔ یہ جعلی فلم تجھے پی ٹی آئی کے لونڈوں لپاڑوں نے پاٹے کے اشارے پر بنا کر بھیجی۔ تو فوراً حرکت میں آ گیا اور کھڑکا ڈالی ایک اور پریس کانفرنس۔ اب پاٹے اور اس کے چمچے اس وقوعے کو کیش کروا رہے ہیں جو سرے سے ہوا ہی نہیں! لیکن تو اپنے ذہن پر بوجھ نہ ڈال۔ اگر ایک اور پریس کانفرنس کرنی ہے تو بازو والے کمرے میں چلا جا۔ وہاں سارا انتظام ہے!' قلندر بولا۔

Contributor

محمد شہزاد اسلام آباد میں مقیم آزاد صحافی، محقق اور شاعر ہیں۔ انگریزی اور اردو دونوں زبانوں میں لکھتے ہیں۔ طبلہ اور کلاسیکی موسیقی سیکھتے ہیں۔ کھانا پکانے کا جنون رکھتے ہیں۔ ان سے اس ای میل Yamankalyan@gmail.com پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔