' جنرل (ر) باجوہ الیکشن سے پہلے ہی عمران خان کو وزیراعظم بنانے کا فیصلہ کر چکے تھے'

' جنرل (ر) باجوہ الیکشن سے پہلے ہی عمران خان کو وزیراعظم بنانے کا فیصلہ کر چکے تھے'
سینیئر صحافی اور کالم نگار سلیم صافی نے انکشاف کیا کہ 2018 کے الیکشن سے پہلے میری جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ فیصلہ کرچکے تھے کہ عمران خان کو وزیراعظم بنانا ہے ۔ اس معاملے پر میری ان سے بڑی تلخ کلامی ہوئی۔

حال ہی میں اینکر سلیم صافی نے نجی نیوز چینل کے ایک پروگرام میں بات کرتے ہوئے کہا کہ 2018 کے الیکشن سے دس بارہ دن پہلے جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ نے مجھے، حامد میر اور ارشاد بھٹی کو میٹنگ کیلئے بلایا۔ ملاقات کے دوران  وہ عمران خان کی بڑی تعریفیں کررہے تھے اور وہ ان سے بہت متاثر نظر آرہے تھے۔ وہ فیصلہ کرچکے تھے کہ عمران خان کو وزیراعظم بنانا ہے۔

سلیم صافی نے مزید کہا کہ قریبا اڑھائی گھنٹے تک میری ان سے بڑی تلخ کلامی ہوئی۔ آخر  میں نے کہا کہ میں ملک چھوڑ جاوں گا لیکن الیکشن میں جو آپ لوگ کر رہے ہیں اس کا حصہ نہیں بن سکتا۔ یہ ان کا بڑا پن ہے کہ انہوں نے مجھے کہا کہ آپ کی مرضی ہے جو بھی کریں۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس سب کے گواہ ، حامد میر اور ارشاد بھٹی ہیں کہ میں نے انہیں کہا کہ جو کچھ آپ کرنے جارہے ہیں سلیم صافی کیا پورا پاکستانی میڈیا بھی رکاوٹ بنے تب بھی عمران خان کو وزیراعظم بننے سے نہیں روکا جاسکتا۔ لیکن میں تین چیزیں کہنا چاہتا ہوں کہ اول یہ کہ عمران خان آپ سے آصف علی زرداری اور نواز شریف کو بخشوا لے گا۔ دوسرا میں نے گزارش کہ کہ یہ شخص کچھ بھی کرسکتا ہے لیکن چین یا سعودی عرب جیسے دوست ممالک کے ساتھ نہیں چل سکتا۔ تیسرا یہ کہ اگر فوج کی سیاست میں یہ مداخلت رہی اور جیسے آپ لوگ کر رہے ہیں آپ کو پختونوں کی پی ڈی ایم کی فکر رہتی ہے تو پنجاب میں بھی پی ڈی ایم بن جائے گی۔

بدقسمتی یہ ہے کہ میری تینوں باتیں درست ثابت ہوئی ہیں۔ اور ریٹائرمنٹ کے بعد جب میری بوجوہ صاحب سے بات ہوئی تو ان کی کیفیت بھی کچھ ایسی ہی تھی۔ اس وقت وہ مجھ پر کافی غصہ تھے اب وہ کہتے ہیں کہ تمہارا اندازہ بالکل ٹھیک تھا۔

اس سے قبل 17 دسمبر کو شائع ہونے والے اپنے ایک کالم میں بھی سلیم صافی نے اس ملاقات کے حوالے  سے تفصیلی  تذکرہ کیا تھا۔

انہوں نے اپنے کالم میں بتایا کہ میں چونکہ عمرانی پروجیکٹ کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی راہ میں حسب استطاعت رکاوٹ بننے کی کوشش کررہا تھا اور اس جرم کی بنیاد پر سب سے زیادہ متاثر ہونے والے صحافیوں کی صف میں شامل ہوں ۔ اس لئے میں زیادہ تر معاملات کا عینی شاہد بھی ہوں۔ الیکشن سے قبل حامد میر صاحب اور ارشاد بھٹی صاحب کے ہمراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کے ساتھ ایک میٹنگ کی روداد پہلے کالم میں لکھ چکا ہوں لیکن حقیقت یہ ہے کہ جب بھی جنرل باجوہ سے ملاقات ہوئی  وہ مجھے عمران خان کی حمایت کیلئے قائل کرتے رہے ۔ وہ خان سے مخلص تھے یا پھر ان کی کامیابی اور ناکامی کو اپنی کامیابی اور ناکامی سمجھ رہے تھے ۔ان کے دور میں نواز شریف ، زرداری اور قوم پرست جماعتوں سے زیادتی ہوئی، مذہبی جماعتوں سے ہوئی اور ہم جیسے عمران خان کے نقاد میڈیا پرسنز اور اداروں سے ہوئی لیکن عمران خان پر صرف اور صرف مہربانی ہوتی رہی۔ اگر پہلے جنرل ظہیرالاسلام اور پھر جنرل باجوہ اور ان کی ٹیم کے لوگ عدلیہ، نیب، الیکشن کمیشن اور میڈیا کے ہاتھ پائوں عمران خان کے حق میں نہ باندھتے تو نہ صرف عمران خان کا وزیراعظم بننا ناممکن تھا بلکہ پارٹی فنڈنگ اور اسی طرح کے دیگر کیسز میں وہ گزشتہ انتخابات سے قبل نااہل ہوکر کسی جیل میں پڑے ہوتے ۔وزیراعظم بنوانے کے بعد ان کی حکومت چلوانے کیلئے بھی جنرل باجوہ جس حد تک عمران خان کے ساتھ گئے ، اتنا شاید نواز شریف بھی شہباز شریف کے ساتھ نہ جاسکیں۔ عمران خان اپنی حرکتوں سے ایک ایک دوست ملک کو ناراض کرتے اور جنرل باجوہ ان کیلئے مناتے رہے ۔ فیٹف سے لے کر اسمبلی میں اعتماد کا ووٹ دلوانے تک ہر معاملے میں جنرل باجوہ ان کی خاطر ہر انتہا پر گئے ۔ جنرل باجوہ میڈیا سے کھیلے، عدلیہ سے کھیلے ، اپوزیشن سیاستدانوں سے کھیلے اور کئی قوتوں کے ساتھ ڈبل گیم بھی کی لیکن عمران خان سے مخلص تھے اور ڈبل گیم نہیں کی تو عمران خان کے ساتھ نہیں کی جبکہ دوسری طرف عمران خان شروع دن سے ان کے ساتھ ڈبل گیم کھیلتے رہے ۔ بلکہ میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ مرکز میں اقتدار سے محرومی کے بعد بھی عمران خان اگر بچے رہے اور ان کے ساتھ نواز شریف وغیرہ والا سلوک نہیں ہوا، تواس میں بھی جنرل باجوہ کا بڑا ہاتھ ہے۔