'عدلیہ کو آزادی ملنی چاہئیے مگر اس کے احتساب کا بھی طریقہ کار بنانا چاہئیے'

'عدلیہ کو آزادی ملنی چاہئیے مگر اس کے احتساب کا بھی طریقہ کار بنانا چاہئیے'
قانونی نکتہ نظر کے حوالے سے اختلاف رائے ہونا خوش آئند رجحان ہے لیکن ایک ایسی تقسیم جس کی وجہ سے ادارے کی بنیاد کو نقصان پہنچ رہا ہے تو یہ ایک مختلف بات ہے اور اس تقسیم کا ذکر احتیاط کے ساتھ ہونا چاہئیے۔ وزیراعظم اور چیف جسٹس کا موازنہ نہیں بنتا کیونکہ ایک عوامی نمائندہ ہے اور دوسرا سرکاری ملازم۔ اگر یہ بل سپریم کورٹ جاتا ہے تو پھر یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ اس پر بنچ کیسے بنایا جائے گا اور کیا تین سینیئر ترین ججز اس کا حصہ بنیں گے۔ یہ کہنا ہے قانون دان احمد حسن شاہ کا۔

نیا دور ٹی وی کے ٹاک شو 'خبر سے آگے' میں انہوں نے کہا کہ ماضی میں جب بھی بحرانی صورت حال بنی تو اقتدار کو قانونی جواز دینے کے لئے عدلیہ کا استعمال کیا جاتا رہا مگر اب عدلیہ کے لئے اتنا آسان نہیں ہے کہ وہ کسی کو تین سال کی ایکسٹینشن دے دے۔ پچھلے کچھ عرصے سے ہم عدلیہ کی آزادی کی بہت باتیں سن رہے ہیں۔ عدلیہ کی آزادی کے نعرے کا غلط استعمال اسی طرح جاری ہے جیسے بات بات پر اسلام خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ چھوٹے بنچ نہیں بننے چاہئیں اور ہر بنچ میں ہر صوبے کی نمائندگی ضرور ہونی چاہئیے۔

پروفیسر یاسر قریشی نے کہا کہ اختلاف رائے اچھی بات ہے مگر مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے چیف جسٹس صاحبان اس اختلاف رائے کو برداشت نہیں کرتے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کیس جب شروع ہوا تو عدالت کے باہر پایا جانے والا سیاسی اختلاف عدالت کے ججوں کے مابین بھی پیدا ہو گیا۔ اس قسم کے اختلاف نے ہی ہمیں یہاں پہنچایا ہے۔ ایک امکان یہ بھی ہے کہ صدر علوی عدالتی اصلاحات کے بل پر دستخط کرنے سے پہلے اس پر رائے لینے کے لئے سپریم کورٹ کو بھجوا دے۔

یہ خوش آئند ہے کہ ججز اصلاحات کی بات خود کر رہے ہیں اور یہ اسی وجہ سے ممکن ہوا ہے کہ دھڑے بندی ہوئی ہے۔ مکمل طور پر 1997 والی صورت حال نہیں ہے اور چیف جسٹس کے خلاف کسی کھلم کھلا بغاوت کی توقع نہیں ہے۔ لیکن اگر جسٹس عیسیٰ کوئی پیش قدمی کرتے ہیں تو دیکھنا ہوگا کتنے جج ان کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔

میزبان رضا رومی نے کہا کہ ہمارے جج صاحبان اپنے فیصلوں میں گاڈ فادر جیسے ناولوں سے اقتباس پیش کرتے ہیں، سموسے کی قیمت پر ازخود نوٹس لیا جاتا ہے، ریکوڈک جیسے عالمی معاہدے کو معطل کر دیا جاتا ہے، سٹیل ملز کو بند کر دیا جاتا ہے۔ عدلیہ کو آزادی ملنی چاہئیے، وسائل ملنے چاہئیں مگر ان کے احتساب کا بھی طریقہ کار طے کرنا چاہئیے۔

پروگرام ہر پیر سے ہفتے کی شب 9 بج کر 5 منٹ پر نیا دور ٹی وی سے پیش کیا جاتا ہے۔