’پرامن‘ اور ’نہتے‘ وکلا کو پولیس اور ینگ ڈاکٹرز نے تشدد کا نشانہ بنایا، پنجاب بار کونسل ڈھٹائی پر اتر آئی

 لاہور میں پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی پر بدھ کے روز لاہور بار ایسوسی ایشن کے سینکڑوں وکلا نے اچانک ’دھاوا‘ بول دیا۔ مشتعل وکلا کے ہجوم نے ہسپتال میں توڑ پھوڑ کی اور ڈاکٹروں اور عملے کے ارکان پر تشدد کیا۔

 ہسپتال انتظامیہ کے مطابق اس پرتشدد احتجاج کے نتیجے میں گلشن بی بی نام کی خاتون چل بسیں جبکہ مریضوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔

 پولیس نے وکلا کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کرتے ہوئے اب تک 15 سے زائد وکیلوں کو حراست میں لے لیا۔ رپورٹ کے مطابق پولیس نے لاہور بار کے صدر عاصم چیمہ کو بھی گرفتار کرلیا جبکہ بقیہ کو بھی جلد حراست میں لیے جانے کا امکان ہے۔



 

دوسری جانب  پنجاب بارکونسل نے وکلا کی گرفتاریوں کے خلاف کل صوبے بھر میں ہڑتال کااعلان کر دیا۔ پنجاب بار کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ صوبے بھر میں وکلا عدالتوں کا بائیکاٹ کریں گے اور احتجاجی ریلیاں نکالی جائیں گی۔

پنجاب بار کونسل کی پریس ریلیز کے مطابق پی آئی میں پیرا میڈیکل سٹاف اور ینگ ڈاکٹروں نے نہتے وکلاء کو بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا، وکلاء پرامن احتجاج کر رہے تھے کہ پولیس اور ینگ ڈاکٹرز نے ان پر حملہ کر دیا اور لاٹھی چارج کیا جس سے درجنوں وکلاء شدید زخمی ہو گئے۔

یاد رہے کہ وکلا نے آج پنجاب اسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی پر دھاوا بولا اور شدید توڑ پھوڑ بھی کی جس کے نتیجے میں اسپتال کا انتظام درہم برہم ہوگیا جبکہ ڈاکٹرز نے بھی احتجاجاً کام روک دیا۔

مشتعل وکلا نے پولیس موبائل کو بھی نذر آتش کیا جبکہ پنجاب کے وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان کو بھی اغوا کرنے کی کوشش کی اور ناکامی پر انہیں شدید تشدد کا نشانہ بنایا۔

وزیراعظم عمران خان نے لاہور پی آئی سی واقعے کا سخت نوٹس لیتے ہوئے چیف سیکرٹری پنجاب اورآئی جی سے رپورٹ طلب کی، ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعظم کو اجلاس کے دوران واقعے سے متعلق آگاہ کیا گیا جس پر انہوں نے وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار سے رابطہ کرکے 48 گھنٹوں میں واقعے کی رپورٹ طلب کی۔

معاملہ شروع کہاں سے ہوا؟


یہ معاملہ اس وقت شروع ہوا جب چند روز قبل کچھ وکلا پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیولوجی میں ایک وکیل کی والدہ کے ٹیسٹ کے لیے گئے، جہاں مبینہ طور پر قطار میں کھڑے ہونے پر وکلا کی جانب سے اعتراض کیا گیا۔اسی دوران وکلا اور ہسپتال کے عملے دوران تلخ کلامی ہوئی اور معاملہ ہاتھا پائی تک پہنچ گیا اور مبینہ طور پر وہاں موجود وکلا پر تشدد کیا گیا۔

مذکورہ واقعے کے بعد دونوں فریقین یعنی وکلا اور ڈاکٹرز کی جانب سے احتجاج کیا گیا اور ایک دوسرے پر مقدمات درج کرنے کا مطالبہ کیا گیا، تاہم بعد ازاں ڈاکٹرز کے خلاف مقدمہ درج کرلیا گیا۔

اس مقدمے کے اندراج کے بعد وکلا کی جانب سے کہا گیا کہ ایف آئی آر میں انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعات شامل کریں، تاہم پہلے ان دفعات کو شامل کیا گیا بعد ازاں انہیں ختم کردیا گیا۔

جس کے بعد ینگ ڈاکٹرز کی جانب سے ایک پریس کانفرنس میں مذکورہ واقعے پر معافی مانگ لی گئی اور معاملہ تھم گیا۔

تاہم گزشتہ روز ینگ ڈاکٹرز کی ایک ویڈیو وائر ہوئی جس میں ڈاکٹر اس واقعے کا ذکر کرتے ہوئے دیکھا گیا، جس میں مبینہ طور پر وکلا کا ‘مذاق’ اڑایا گیا تھا، جس پر وکلا نے سوشل میڈیا پر ڈاکٹر کے خلاف ایک مہم شروع کردی۔

اس معاملے پر بدھ کو ایوان عدل میں لاہور بار ایسوسی ایشن کا اجلاس عاصم چیمہ کی سربراہی میں ہوا جس میں مزید کارروائی کے لیے معاملے کو جمعرات تک ملتوی کردیا گیا، تاہم کچھ وکلا نے بدھ کو ہی ڈاکٹرز کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے پی آئی سی کا رخ کیا۔