حافظ سعید کو دہشت گردی میں معاونت پر مجموعی طور پر 11 سال قید کی سزا

حافظ سعید کو دہشت گردی میں معاونت پر مجموعی طور پر 11 سال قید کی سزا
پاکستان میں کالعدم جماعت الدعوۃ کے سربراہ حافظ سعید کو لاہور کی انسداد دہشت گردی عدالت نے دو مقدمات میں مجموعی طور پر 11 سال قید کی سزا سنائی ہے۔ انسداد دہشت گردی عدالت نمبر ایک کے جج ارشد حسین بھٹہ نے فنڈ ریزنگ اور منی لانڈرنگ پر سزا سنائی۔

واضح رہے کہ بین الاقوامی ادارے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی جانب پاکستان کو دی جانے والے فہرست میں ایک کام دہشت گردی میں ملوث تنظیموں اور اشخاص کے خلاف کاروائی کرنا بھی شامل تھا۔ حکومت پاکستان نے جولائی 2019 میں ایسے 23 مقدمات درج کیے جن میں 13 افراد کو نامزد کیا تھا۔ ان میں سے 11 مقدمات میں کالعدم تنظیم جماعت الدعوہ کے سربراہ حافظ سعید کو نامزد کیا گیا تھا۔

ان پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ انہوں نے پانچ ایسے ادارے بنا رکھے ہیں جو براہ راست دہشت گردی کے لیے رقم فراہم کرتے رہے ہیں۔

حافظ سعید پر جن اداروں کو بنانے کا الزام ہے ان میں دعوت و الاشاد ٹرسٹ، معاذ بن جبل ٹرسٹ، الانفال ٹرسٹ، الحمد ٹرسٹ اور المدینہ فاونڈیشن ٹرسٹ شامل ہیں۔

مقدمے کے پراسیکیوٹر عبدالرووف وٹو نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ حافظ سعید کے خلاف اس وقت انسداد دہشت گردی کی عدالت میں دو مقدمات کا ٹرائل ہوا ہے ایک مقدمہ گوجرانوالہ کاوئنٹر ٹیرر ازم ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے درج کیا گیا جبکہ ایک مقدمہ سی ٹی ڈی لاہور کی جانب سے درج کیا گیا۔ دونوں مقدمات میں پراسیکیوشن کے 23 گواہان پیش ہوئے جنہوں نے اپنے بیانات قلمبند کروائے۔

انہوں نے بتایا کہ حافظ سعید پر دہشت گردی کے لیے فنڈ اکھٹے کرنے اور ان فنڈز سے جائیدادوں کی خریداری اور دہشت گردی کے لیے استعمال کرنے کے الزامات ثابت ہوئے ہیں۔

خیال رہے کہ حافظ سعید 3 جولائی 2019 کو یہ مقدمات بنائے گئے اور انہیں 17 جولائی کو گرفتار کیا گیا۔ جبکہ 11 دسمبر کو لاہور کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نمبر 1 نے ان پر فرد جرم عائد کی اور مقدمے کی سماعت روزانہ کی بنیادوں پر کی جانے لگی۔ وکیل استغاثہ عبدالرووف وٹو کے مطابق حافظ سعید کی جانب سے ان کے وکیل کے عدالت میں پیش ہونے پر ان کو سرکاری طور پر وکیل دفاع دیا گیا جس کی وجہ سے مقدمہ کی سماعت روزانہ کی بنیادوں پر ممکن ہوئی۔