ہزاروں لوگوں کے قاتلوں سے مذاکرات، حکومت کو یہ حق کس نے دیا: زاہد حسین

ہزاروں لوگوں کے قاتلوں سے مذاکرات، حکومت کو یہ حق کس نے دیا: زاہد حسین

زاہد حسین نے کہا ہے کہ حکومت اگر بین الاقوامی دہشتگرد تنظیم سے مذاکرات کرنے جا رہی ہے تو قوم کو پتا چلنا چاہیے کہ ایسی کون سی خفیہ تبدیلی ملک میں آ چکی ہے کہ ریاست کو ایسے اقدامات اٹھانا پڑ رہے ہیں۔ حکومت کو ہزاروں لوگوں کا قتل کرنے والوں سے مذاکرات کا حق کس نے دیا؟


نیا دور ٹی وی کے پروگرام ''خبر سے آگے'' میں گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ایک آرگنائزیشن جس نے چھ سال ریاست کیخلاف جنگ کی اور ہزاروں لوگوں کو شہید کیا، ہمیں بتایا جا رہا ہے کہ اب ان کیساتھ مذاکرات کئے جا رہے ہیں۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ اگر ٹی ٹی پی کیساتھ گزشتہ ایک سال سے بات چیت کا سلسلہ جاری ہے تو پچھلے چند ماہ کے دوران ہمارے 200 سے زائد جوانوں اور افسروں کو انہوں نے کیوں شہید کیا۔ کیا حکومت کے پاس اپنی بات منوانے کیلئے کچھ نہیں، لگتا ہے یہ مذاکرات کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی شرائط پر ہی کئے جا رہے ہیں۔


ان کا کہنا تھا کہ پہلے بھی ٹی ٹی پی کیساتھ مذاکرات کئے گئے تھے۔ 2008ء کے دوران سوات میں ان کیساتھ باقاعدہ امن معاہدہ ہوا تھا۔ لیکن اس کے بعد بھی جو کچھ ہوا، اس کے نقش آج تک ہماری ذہنوں میں تازہ ہیں۔


انہوں نے کہا کہ ہم دنیا کو کہتے رہے کہ ہم انتہا پسندی کیخلاف لڑ رہے ہیں اور انہیں سمجھانے کی کوشش کرتے رہے کہ ہم نے دہشتگردی کیخلاف سب سے زیادہ قربانیاں دیں، لیکن جب ایسی باتیں ہوتی ہیں تو یہ سب چیزیں مذاق بن کر ہمارے سامنے آ جاتی ہیں۔


تحریک لبیک پاکستان ( ٹی ایل پی) کے معاملے پر بات کرتے ہوئے زاہد حسین کا کہنا تھا کہ ٹی ایل پی کے ساتھ 2020ء میں جو معاہدہ ہوا تھا، کوئی بھی ریاست ایسا نہیں کرتی، اس میں یہ فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کرنے کی بھی شق تھی۔ انہوں نے جو کچھ کہا وہ ہمارے حکمران مانتے گئے۔ ابھی حال ہی میں جو کچھ ہوا اس میں ہمارے لئے کچھ بھی سرپرائز نہیں تھا۔


زاہد حسین نے کہا کہ اس مسئلے میں کم از کم ہماری فوج اور حکومت ایک پیج پر ہیں۔ یہ اس ملک کیلئے لمحہ فکریہ ہے کہ یہ لوگ ہر دفعہ آتے ہیں، دھرنا دیتے ہیں اور حکومت ان کی باتیں ماننا شروع کر دیتی ہے۔


ان کا کہنا تھا کہ آسیہ بی بی کے معاملے پر ریاست نے فیصلہ کر لیا تھا کہ ایسے عناصر کو باہر نکلنے سے روکنا ہے، اس موقع پر تمام لیڈران کو قید بھی کیا گیا، اس وقت کوئی بھی باہر نہیں آیا تھا جبکہ زیر حراست لوگ معافیاں مانگ کر قید سے باہر آئے تھے۔ میری سمجھ سے باہر ہے کہ انہیں ہر دفعہ کیسے اتنی تقویت مل جاتی ہے کہ وہ جو چاہتے ہیں منوا لیتے ہیں۔