کیا دسمبر میں ہونے والے واقعات ہم بار بار دہرائیں گے!

کیا دسمبر میں ہونے والے واقعات ہم بار بار دہرائیں گے!
پاکستان میں دسمبر انتہائی اہم اور دردناک مہینہ ثابت ہوتا ہے۔ تاریخ میں دسمبر کے مہینے میں بہت واقعات رونما ہوئے ہیں سقوط ڈھاکہ، آرمی پبلک سکول پر حملہ، اور اب حال ہی میں سری لنکن مینجر کا قتل، اسی طرح کہ بے شمار واقعات پاکستان کی تاریخ پر سیاہ دھبے کی حیثیت برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ اس کالم میں کوشش کروں کا کہ اوپر بیان کئے گئے تینوں واقعات اور پاکستانی عوام کی ذہنیت کی کڑیاں جوڑ کر بحیثیت قوم و ملت ہم کیا ہیں اس کا ادراک آپ کو کرا دوں۔

سب سے پہلے تو حال ہی میں ہوئے سانحہ سیالکوٹ کی طرف جا کر صرف اتنی وضاحت کرنا چاہوں گا کہ ایک انتہائی بھونڈی دلیل کچھ انتہاء پسندوں کی جانب سے دیکھنے میں آ رہی کہ سری لنکن سیالکوٹ کیا کر رہا تھا آخر پاکستانی اس قابل نہیں کیا؟ میں نے کچھ مقامی لوگوں اور فیکٹری والوں سے رابطہ کیا تو معلوم ہوا کہ سپورٹس کہ حوالے سے سیالکوٹ دنیا کے بہترین انڈسٹریل شہروں کی فہرست میں شامل ہے اور آئے روز یہاں بیرون ملک سے لوگ وزٹ کرنے مختلف فیکٹریوں میں آتے رہتے ہیں یہاں تک کہ عالمی کھیلوں کے فائنلز میں کئی بار سیالکوٹ کی بنی اشیاء استعمال ہوتیں ہیں، مگر سیالکوٹ کی تمام پروڈکشن کا نظام ابھی تک مینول اور پرانی طرز کا ہے جبکہ دنیا میں نت نئے طریقوں اور جدید ٹیکنالوجی سے یہ نظام آگے بڑھ رہا جس کو مد نظر رکھتے ہوئے سیالکوٹ میں غیر ملکی پروڈکشن مینیجرز کو رکھا جاتا ہے اور آہستہ آہستہ نظام کو درست کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

ابھی کچھ عرصہ قبل ہی سیالکوٹ کی فیکٹریوں کا اکثر نظام کورین پروڈکشن کی طرز پر ہونا شروع ہوا ہے، اسی حوالے سے مزید ٹیکنالوجی کے لئے یورپ سمیت سری لنکا، بنگلہ دیش، کوریا سے افراد کو بلا کر نظام کو جدید بنایا جا رہا ہے۔ فیکٹریوں کا آڈٹ غیر ملکی کمپنیاں جن سے فیکٹریاں منسلک ہوتیں ہیں وہ ہر سال آ کر کرتیں ہیں جہاں چائلڈ لیبر، صفائی، مشینوں کی مینٹننس اور ورکرز کی سہولیات کو دیکھا جاتا ہے۔ اسی حوالے سے راجکو فیکٹری میں اگلے چند روز میں دنیا کی بڑی کمپنیوں میں سے موجود کمپنی FILA کے برانڈ ایمبسیڈر نے وزٹ کرنا تھا جس کی غرض سے صفائی اور دیگر معاملات کے لئے کمپنی کو تیار کرنے کی ذمہ داری مینجر پر ہوتی ہے جس کا حکم پرنتھا کمارا نے دیا تا کہ پاکستان کی کمپنی پاکستان کے ورکرز اور پاکستان کی معیشت کا بھلا ہو، آڈٹ پاس ہو اور نئے آرڈرز مل سکیں۔

اس معاملے کو مدنظر رکھتے ہوئے فیکٹری سے اس نے تمام مشینوں کی صفائی کروائی اور یہ کوئی پہلی بار نہیں تھا نہ ہی ایسا کسی پہلی فیکٹری میں ہوا تھا کیونکہ پاکستان میں درمیانہ اور نچلے طبقہ، تعویز دھاگوں پوسٹر اور جھنڈوں کے سائے تلے رہتا ہے تو ہر کمپنی میں یہ تمام چیزیں لگی ہوتیں جو کہ آڈٹ کے وقت عارضی طور پر اتاری جاتیں بعدازاں پھر لگا لی جاتیں ہیں۔ غیر ملکی مینجرز چونکہ ڈسپلن اور دیگر پروفیشنل معاملات میں پاکستانیوں سے آگے ہوتے ہیں لہذا ہم ان کو سخت رویے والا باس قرار دے دیتے ہیں حالانکہ وہ سخت نہیں ہوتے بلکہ پروفیشنل اور ترقی یافتہ ہوتے ہیں۔ ہم جیسی قوم کی طرح کام چور یا مفت کا جگاڑ لگانے والے نہیں ہوتے، اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے ورکرز نے ان کے خلاف منظم مہم چلائی اور پرانتھا کمارا کو چھت پر بھاگنا پڑا جہاں سے مار مار کر اسے گھسیٹ کا نیچے لایا گیا اور روڈ پر مردہ لاش کو آگ لگا دی گئی۔

یہ تو وہ معاملہ تھا کہ آخر سری لنکن پاکستان میں آیا کیوں؟ دوسری طرف اوپر دی گئی سقوط ڈھاکہ کی مثال سے میں بحیثیت قوم اپنا اور ہماری ریاست کا مزاج آپ کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ تب بھی ہم لوگ خود کو اعلی درجے کا سمجھ کر بنگالیوں کو ان کے رنگ ، قد اور چہرے بناوٹ پر طعنے کستے تھے ان کو نوکری کہ لئے صرف گھروں میں ملازمت، اسٹیشنوں پر کلی/مزدور یا صفائی والے کے حساب سے برتاؤ کیا جاتا تھا، ان کو گالیاں نکالی جاتیں تھیں جس کا ذکر برگیڈئیر صدیق سالک اپنی کتاب میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا میں کرتے ہیں کہ جب ان کی ڈیوٹی مشرقی پاکستان میں تھی اور وہ وہاں پہنچے تو ایک ملازم انہیں سیلوٹ کر کے اسٹیشن پر لینے آیا، وہاں انہوں نے اپنا سامان رکھا تو بنگالیوں کی لائن لگ گئی کہ صاحب کا سامان میں اٹھا کر گاڑی تک لیجاؤں گا اور ایک بنگالی نے سامان اٹھا کر جب گاڑی تک رکھا تو صدیق سالک کہتے میں نے اسے چند پیسے دئیے جو کہ موجودہ پاکستان کے کام کرنے والے کے حساب سے کم تھے مگر وہاں لینے آئے ملازم نے کہا "سر ان حرامزادوں کی عادت مت بگاڑیں" اسی طرح جب گھر پر کام کرنے کے لئے خواتین کو رکھا گیا تو صدیق سالک لکھتے ہیں کہ میری بیوی نے مجھے کہا میں نے دو کام والیاں رلھ لیں ہیں کیونکہ موجودہ پاکستان میں جتنے روپے میں ایک آتی تھی اس سے بھی کم پیسوں میں بنگالی دو عورتیں کام کرنے کو تیار ہیں۔

لہذا ہمارا بحیثیت قوم یہ رویہ آج کا نہیں ہے ہم عام عوام سے ریاست تک تمام کا رویہ جارحانہ تعصبانہ اور انتہائی شرم ناک رہا ہے۔ ہم نے کبھی خود سے بہتر نہ کسی کو سمجھا ہے اور نہ اپنی غلطی تسلیم کرنے والی حس ہم لوگوں میں موجود ہے۔

آرمی پبلک اسکول حملہ کا واقع بھی دسمبر کے مہینے میں پیش آیا تھا اس واقعے کا تذکرہ میں صرف اس لئے ضروری سمجھتا ہوں کہ ایسے حملہ کرنے والوں کا بنانا پھر ان کو بھڑاوا دینا پھر ان کے خلاف ہو جانا اور پھر ان سے مذاکرات کر لینا یہ سب ہمارا شیوا رہا ہے، نجانے ہم کب سبق سیکھیں گے؟ نجانے کب ہم تعصبانہ اور جارحانہ رویوں سے باہر آئیں گے! یہ سوال اتنا ہی مشکل ہے جتنا سائنسی دنیا میں آجکل سپیڈ کی لائٹ سے انسان کا سفر کرنا مشکل ہے۔

عظیم بٹ لگ بھگ 8 برسوں سے صحافت کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ بطور سماجی کارکن ملکی و غیر ملکی میڈیا فورمز اور ٹیلی وژن چینلز پر پاکستان کا مؤقف پیش کرتے ہیں۔ سردست وہ سماء ٹی وی کے ساتھ بطور ریسرچر اور پروڈیوسر وابستہ ہیں۔ ان کا ٹویٹر ہینڈل یہ ہے؛ Azeembutt_@