مٹھی: ضلعی انتظامیہ اور بااثر افراد کی ملی بھگت، زیر تعمیر مندر مسمار، زمین پر قبضہ کرنے کی کوشش

مٹھی: ضلعی انتظامیہ اور بااثر افراد کی ملی بھگت، زیر تعمیر مندر مسمار، زمین پر قبضہ کرنے کی کوشش
صوبہ سندھ کے شہر مٹھی میں ضلعی انتظامیہ اور بااثر کی ملی بھگت سے مندر کی زمین پر قبضہ کرکے اسے مسمار کر دیا گیا ہے۔ واقعے کے خلاف سندھ بھر میں ہندو برادری نے احتجاج کرتے ہوئے ریلیاں نکالیں۔

تفصیلات کے مطابق ہندوئوں کی کھتری برادری نے ہنگلاج ماتا مندر تعمیر کرنے کیلئے اپنی زمین پر اس کی تعمیر شروع کی تو وہاں موجود کچھ بااثر افراد، ڈسٹرکٹ کمشنر، اسسٹنٹ کمشنر اور ضلعی انتظامیہ نے اس کو مسمار کر دیا۔

کھتری برادری نے ہنگلاج ماتا مندر کو مسمار کرنے پر سخت ردعمل دیتے ہوئے دیوی ماتا مندر سے پریس کلب تک احتجاجی ریلی نکالی۔ مظاہرے میں شریک افراد نے اپنے ہاتھوں میں بینرز اٹھائے ہوئے تھے، جن پر نعرے درج تھے۔

احتجاجی ریلی میں شریک ہندو برادری کے افراد کا کہنا تھا کہ ہمارا صرف ایک ہی مطالبہ ہے کہ ہمارے مسمار کئے گئے مندر کو واپس تعمیر کرایا جائے۔ جبکہ ڈسٹرکٹ کمشنر مٹھی عبداللہ حامد مغل کے خلاف سخت قانونی کاروائی کرکے ان کو فوری نوکری سے ہٹانے کے احکامات جاری کئے جائیں۔



کھتری برادری کے ایک سینئر وکیل پرشوتم کھتری نے مقامی صحافی دلیپ کمار کھتری سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم پرامن لوگ ہیں لیکن قانون کا راستہ بخوبی جانتے ہیں۔ کچھ روز قبل مٹھی میں کچھ شرپسندوں نے ہنگلاج ماتا مندر کو مسمار کرکے ہمیں اُداس کردیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہندو برادری اپنی زمین پر مندر کی تعمیر کروا رہی تھی لیکن مسماری کے بعد اب اس پر قبضہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ساتھ ہی ریونیو ریکارڈ کو غیر قانونی طور پر تبدیل بھی کیا جا رہا ہے۔

ہندو برادری نے عمر کوٹ پریس کلب پر احتجاج کرتے ہوئے چیف جسٹس، وزیراعلیٰ سندھ، وزیراعظم اور اعلیٰ حکام سے سخت کاروائی کا مطالبہ کیا ہے۔

یہ بات ذہن میں رہے کہ صوبہ سندھ کا ضلع مٹھی پُرامن شہر سے جانا جاتا ہے جہاں ہندو مسلم بھائی چارے کی زندہ مثال ملتی ہے۔ عید ہو یا ہولی کا تہوار، دسہرا ہو یا محرم دونوں مذاہب سے تعلق رکھنے والے اس میں شریک ہوتے ہیں۔



شہر میں موجود درجن سے زائد مسلم درگاہوں کے منتظمین ہندو برادری سے تعلق رکھتے ہیں، اس شہر میں گائے کی قربانی یا گوشت کبھی فروحت نہیں کیا جاتا۔

پاکستان بھر میں مندروں کی تور پھوڑ کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ اس سے قبل، گذشتہ برس نومبر میں کراچی کی لی مارکیٹ کے نزدیک سیتل داس کمپاؤنڈ میں قائم مندر میں بھی چند افراد کی جانب سے کئے گئے حملے کے بعد توہین مذہب کا مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

https://twitter.com/LALMALHI/status/1483451864859516933?s=20

رواں برس جولائی میں صوبہ پنجاب کے شہر رحیم یار خان میں ایسا ہی ایک واقعہ پیش آیا تھا جس میں مشتعل ہجوم نے بھونگ نامی علاقے میں واقع مندر پر دھاوا بول دیا تھا۔ حملہ آوروں نے مندر میں گھس کر توڑ پھوڑ کی تھی اور وہاں نصب مورتیوں کو بھی نقصان پہنچایا تھا۔ اس واقعے پر چیف جسٹس آف پاکستان کی جانب سے بھی نوٹس لیا گیا تھا اور 50 کے قریب مشتبہ افراد کو گرفتار بھی کیا گیا تھا۔

اسی طرح صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع کرک میں بھی گذشتہ برس دسمبر میں مندر پر حملے کا واقعہ پیش آیا تھا جس میں مشتعل مظاہرین نے ہندوؤں کے مقدس مقام میں ایک سمادھی کی توسیع کے خلاف ہلہ بول کر مندر کی توسیع کو روک دیا تھا اور اس موقع پر مندر کو شدید نقصان بھی پہنچایا تھا۔



مٹھی میں نئے تعمیراتی مندر کو مسمار کرنے پر پارلیمانی سیکرٹری برائے انسانی حقوق لال مالہی کا کہنا ہے کہ اس طرح کے واقعات پاکستان میں مذہبی ہم آہنگی کو نقصان پہنچاتے ہیں۔

اپنے ٹویٹ میں انہوں نے لکھا کہ مٹھی تھرپارکر میں زیر تعمیر ہنگلاج ماتا مندر کو انتظامیہ نے زمین بوس کر دیا۔ اقلیتوں کے حقوق کی نام نہاد چیمپئن پی پی پی سندھ پر حکومت کر رہی ہے جب کہ اقلیتیں مشکلات کا شکار ہیں۔

مندر کے مسمار پر ہندو برادری عمرکوٹ سے تعلق رکھنے والے تیرتھ داس گراچ نے کہا کہ ’جب تک ملوث افراد کو سزا نہیں ہو گی ایسے واقعات کو روکا نہیں جا سکتا۔‘