مجھے ججز کی تعیناتی کے عمل سے باہر رکھا جا رہا ہے: قاضی فائز عیسیٰ کا تہلکہ خیز خط

مجھے ججز کی تعیناتی کے عمل سے باہر رکھا جا رہا ہے: قاضی فائز عیسیٰ کا تہلکہ خیز خط
سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا ایک تہلکہ خیز خط سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ مجھے ججز کی تعیناتی کے عمل سے باہر رکھا جا رہا ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے لکھا کہ مجھے میڈیا کے ذریعے معلوم ہوا کہ جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کے دو اجلاس بالترتیب 28 اور 29 جون کو بلائے گئے ہیں تاکہ لاہور ہائی کورٹ کے ایڈیشنل ججز اور سندھ ہائی کورٹ کے نامزد امیدواروں پر غور کیا جا سکے۔

انہوں نے خط میں انکشاف کیا کہ نہ ہی چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال اور نہ ہی سیکریٹری جواد پال نے مجھے ان اجلاسوں کے بارے میں کوئی اطلاع دی۔

ان کا کہنا تھا کہ میرے پرائیویٹ سیکرٹری نے سیکرٹری کے خطوط کی تصاویر لے کر مجھے واٹس ایپ کیں۔ ان میں ممکنہ طور پر نامزد افراد کی تفصیلات اور ان کے کام کے نمونے تھے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ جے سی پی کی یہ میٹنگز جس انداز میں بلائی گئی ہیں۔ یہ حقارت، تکبر ہے یا غیر احتسابی کا جھانسہ؟ اور کیا ایسا طرز عمل اداروں کو مضبوط اور تعمیر کرتا ہے یا انہیں کمزور اور تباہ کرتا ہے؟

انہوں نے اپنے خط میں لکھا کہ جب معاملات کا فیصلہ یکطرفہ اور من مانے طریقے سے کیا جاتا ہے اور سیکرٹری مکمل طور پر غیر جوابدہ ہوتے ہیں تو کوئی سوال کر سکتا ہے کہ سپریم کورٹ کو اپنے اپنے دائرہ کار میں اسی طرح اختیارات استعمال کرنے والوں کے ساتھ معاملہ اٹھانے کا کیا جواز ہے؟

یہ بھی پڑھیں: جسٹس فائز عیسیٰ کی ریٹائرڈ ججز کو مراعات دینے کی مخالفت کتنی اہمیت کی حامل ہے؟

خیال رہے کہ گذشتہ روز ‎ سپریم کورٹ کے جسٹس فائز عیسیٰ نے ریٹائرڈ ججوں کو مراعات دینے کی تجویز کی مخالفت کرتے ہوئے "اسے باعث شرم اور نامناسب قرار دیا ہے”۔ انھوں نے ان تحفظات کا اظہار چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کو لکھے گئے ایک خط میں کیا ہے۔

جسٹس فائز عیسیٰ نے خط کے ذریعے واضح کیا ہے کہ ریٹائرڈ ججوں کو گاڑیوں کی فراہمی کی تجویز ججز کے حلف کی خلاف ورزی ہے۔ واضح رہے کہ رجسٹرار سپریم کورٹ جواد پال نے فل کورٹ کی منظوری کے لیے ایک سرکلر بھجوایا جس میں ریٹائرڈ ججز کو گاڑیاں فراہم کرنے کے لیے اس کی منظوری مانگی گئی ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے فل کورٹ کے ذریعے ریٹائرڈ ججز کو مراعات دینے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ عدالتی ضابطہ اخلاق اور حلف کے تحت جج خود کو مراعات کے لئے یہ عہدہ استعمال نہیں کر سکتا۔

کیا قانونی طور پر ریٹائرڈ ججز مراعات کے اہل ہیں؟

سینئر قانون دان کامران مرتضیٰ نے اس حوالے سے نیا دور میڈیا کو بتایا کہ پارلیمنٹ نے ریٹائرڈ ججز کی مراعات کے حوالے سے اب تک کوئی قانون سازی نہیں کی اور ججز کو مراعات صدارتی آرڈر کے تحت ہی دی جاتی ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ اس حوالے سے صدر پاکستان کی ریگولیشن کے تخت ہی منظوری دی جا سکتی ہے اور صدر پاکستان کی منظوری کے بغیر ججز کو کوئی مراعات نہیں دی جاسکتی ہے۔

ریٹائرڈ ججز کو کیا مراعات حاصل ہوتی ہیں؟

انڈیپینڈنٹ اردو کی ایک خبر کے مطابق صدارتی آرڈر 1997 کے مطابق ریٹائر جج کو تنخواہ کا 85 فیصد پینشن کے طور پر ملتا ہے۔ اس کے علاوہ گیٹ پر 24 گھنٹے ڈیوٹی دینے والا سکیورٹی محافظ بھی ریٹائر جج کو میسر ہوگا۔ ریٹائر ججز کو کم قیمت پر 1800 سی سی سرکاری گاڑی خریدنے کی سہولت بھی حاصل ہوتی ہے۔ دیگر مراعات میں تین ہزار فون کے بل کی مد میں، دو ہزار بجلی کے ماہانہ یونٹس، 25 ہیکٹو میٹرز یونٹس ماہانہ گیس کی فراہمی، 300 لیٹر ماہانہ پیٹرول اور پانی کی مفت فراہمی شامل ہے۔ 2016 میں قوانین میں کچھ ترامیم کی گئی تھیں، جس کے تحت سرکاری ڈرائیور یا اردلی کی سہولت بھی دی جاتی ہے۔

جسٹس فائر عیسٰی نے چیف جسٹس کو لکھے گئے خط میں مزید کہا ہے کہ رجسٹرار سپریم عوامی اہمیت کے کورٹ میں مسائل کی بجائے نظر عوامی وسائل کی طرف ہے۔ رجسٹرار نے فل کورٹ کی منظوری کے لیے ایک سرکلر بھجوایا ہے،‎ اس سرکلر میں ریٹائرڈ ججز کو گاڑیاں فراہمی کرنے کے لیے فل کورٹ کی منظوری مانگی گئی ہے، مجھے یکم جون کو یہ انتہائی باعث شرم تجویز موصول ہوئی۔

کیا جسٹس فائز عیسیٰ کی خط کی کوئی اہمیت ہے؟

سپریم کورٹ کے سینئر صحافی عمران وسیم سے جب اس حوالے سے پوچھا گیا تو انھوں نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ جسٹس فائز عیسیٰ کا خط منطقی طور پر تو درست ہے مگر یہ فائر عیسیٰ صاحب کا ذاتی نقطہ نظر ہے اور اس حوالے سے فیصلہ فل کورٹ کے اجلاس میں ہوگا۔ انھوں نے مزید کہا کہ یہ تجویز رجسٹرار سپریم کورٹ کی جانب سے آئی ہے اور ان کا تعلق بھی بیوروکریسی سے ہے اور وہاں مراعات کے حوالے سے  اکثر ایسی سوچ پائی جاتی ہے۔

خط میں مزید کیا کہا گیا؟

جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ ججز کے لیے مراعات کی تجویز دینا ججوں کے حلف کی خلاف ورزی ہے۔ جسٹس فائر عیسیٰ نے سوال اٹھایا کہ ریٹائرڈ جج کو کسی بھی قسم کی مراعات دینے کی تجویز سے اختلاف کرتا ہوں۔ صحافی عمران وسیم کہتے ہیں کہ ملک ایک سنگین بحران سے گزر رہا ہے جس میں عوام سمیت دیگر مکتبہ فکر کے لوگ قربانیاں دے رہے ہیں اور فائز عیسیٰ صاحب کا خط بھی ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے، جب ملک سنگین معاشی حالات سے گزر رہا ہے، مگر بات وہی ہے کہ یہ فائز عیسیٰ صاحب کی ذاتی رائے ہے اور فیصلہ فل کورٹ نے کرنا ہے کیونکہ وہی قانونی فورم ہے اور اس فورم پر ججز کو مراعات دینے کی منظوری بھی دی جا سکتی ہے اور مخالفت بھی ہو سکتی ہے، لیکن اکثریت کی رائے پر فیصلہ ہوگا۔

جسٹس قاضی فائر عیسیٰ نے اپنے خط میں مزید لکھا کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے ریٹائرمنٹ سے کچھ ماہ پہلے فل کورٹ میٹنگ بلائی، اس فل کورٹ میٹنگ میں ریٹائرڈ چیف جسٹس کے لیے گریڈ 16 کے سیکریٹری کی منظوری لی گئی اور یہ سب کچھ ایک ایسے وقت میں کیا گیا جب مجھ سمیت کئی ججز چھٹی پر تھے۔

سینئر قانون دان اور سینٹر کامران مرتضیٰ نے نیا دور میڈیا کو بتایا کہ جسٹس فائز عیسیٰ صاحب کی جانب سے ریٹائرڈ ججز کو مراعات دینے کے حوالے سے جو نکتہ اٹھایا گیا ہے، میں موجودہ حالات میں اس کی حمایت کرتا ہوں لیکن اگر یہ بزنسز سپریم کورٹ کی حد تک محدود ہو تو بہتر ہے کیونکہ میڈیا میں اس کی تشہیر میری نظر میں عدلیہ کی بدنامی کا باعث بن رہی ہے۔

سپریم کورٹ کے رجسٹرار کا موقف جاننے کے لیے نیا دور میڈیا کی جانب سے ان سے بار بار رابطہ کیا گیا مگر انھوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔