فیصلے کی گھڑی آ گئی، الیکشن کمیشن کا غیر ملکی فنڈنگ ​​کیس کا فیصلہ سنانے کا اعلان

فیصلے کی گھڑی آ گئی، الیکشن کمیشن کا غیر ملکی فنڈنگ ​​کیس کا فیصلہ سنانے کا اعلان
8 سالوں سے زیر سماعت پی ٹی آئی فارن فنڈنگ کیس کے حوالے سے فیصلے کی گھڑی آن پہنچی ہے۔ الیکشن کمیشن نے منگل مورخہ 2 اگست کو تحریک انصاف کیخلاف ممنوعہ فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ سنانے کا اعلان کر دیا ہے۔ خیال ر ہے کہ الیکشن کمیشن پاکستانی تاریخ کے اس اہم کیس کا فیصلہ 21 جون 2022ء کو محفوظ کیا تھا۔

خیال رہے کہ پی ٹی آئی کے بانی رکن اکبر ایس بابر نے 2014ء میں غیر ملکی فنڈنگ کے حوالے سے الیکشن کمیشن میں درخواست دائر کی تھی۔ اس اہم کیس کی ان 8 سالوں میں تقریباً 100 سماعتیں ہوئیں۔

پی ٹی آئی نے فارن فنڈنگ کیس میں ان سالوں میں وکلا کی 9 ٹیموں کو تبدیل کیا۔ اکبر ایس بابر کی جانب سے الیکشن کمیشن میں جمع کروائی گئی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ یہ تمام ریکارڈ سٹیٹ بینک کی جانب سے فراہم کی گئیں 9 اکاؤنٹس کی تفصیلات سے اکھٹا کیا گیا ہے۔

اکبر ایس بابر کی طرف سے پچاس کے قریب پی ٹی آئی کے اکاؤنٹس کی تفصیلات فراہم کرنے کیلئے اسٹیٹ بینک کو درخواست دی گئی تھی۔ رپورٹ میں 90 کے قریب غیر ملکیوں اور 200 سے زائد ان غیر ملکی کمپنیوں کا ذکر کیا گیا ہے جنہوں نے درخواست گزار کے دعوے کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کو فنڈز دیئے ہیں۔

رپورٹ میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا کہ ان ممالک سے 73 لاکھ سے زائد امریکی ڈالر کے جو فنڈز پی ٹی آئی نے اکھٹے کئے ہیں ان کے ذرائع نہیں بتائے گئے۔

اکبر ایس بابر کے مطابق جن ملکوں سے پی ٹی آئی کو ممنوعہ فنڈنگ ہوئی ان میں ناروے، سعودی عرب، آسٹریا، فن لینڈ، ہانگ کانگ، نیوزی لینڈ، سنگاپور، سویڈن، سوئٹزرلینڈ، متحدہ عرب امارت، جرمنی اور ڈنمارک شامل ہیں۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پی ٹی آئی کی ممنوعہ فنڈنگ کی جانچ کیلئے مارچ 2018ء میں ایک سکروٹنی کمیٹی قائم کی۔ اس کمیٹی کے 95 اجلاس ہوئے جس میں 24 بار پی ٹی آئی نے التوا مانگا۔

پی ٹی آئی نے درخواست گزار کی کمیٹی میں موجودگی کیخلاف چار درخواستیں دائر کیں۔ سکروٹنی کمیٹی نے 20 بار احکامات جاری کئے کہ پی ٹی آئی متعلقہ دستاویزات فراہم کرے۔

الیکشن کمیشن نے اگست 2020ء میں سکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا تھا کہ رپورٹ نامکمل ہے۔ اس پر سکروٹنی کمیٹی نے 4 جنوری 2022ء کو ایک فائنل رپورٹ جمع کرائی۔

سکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن کو دی گئی دستاویزات میں 31 کروڑ روپے کی رقم ظاہر نہیں کی۔ سکروٹنی کمیٹی نے فنڈنگ کی تفصیلات سے متعلق سوالنامہ دیا لیکن پی ٹی آئی نے اس کا کوئی واضح جواب نہیں دیا۔ اس کے علاوہ غیر ملکی اکاؤنٹس تک رسائی بھی نہیں دی گئی۔

پی ٹی آئی نے اپنے گوشواروں میں بینک آف خیبر، بینک آف پنجاب اور ایم سی بی کے اکاؤنٹس کو ظاہر نہیں کیا جبکہ سٹیٹ بینک ڈیٹا کے مطابق تحریک انصاف کے پاکستان میں 26 بینک اکاؤنٹس ہیں۔

رپورٹ کے مطابق تحریک انصاف نے نے 2008ء سے 2013 کے دوران نے 14 بینک اکاؤنٹس کو چھپایا۔ پی ٹی آئی نے سکروٹنی کمیٹی رپورٹ پر جواب میں 11 اکاؤنٹس سے اظہار لاتعلقی کیا اور کہا یہ غیر قانونی طور پر کھولے گئے۔ یہ اکاؤنٹس ظفر اللہ خٹک، نعیم الحق، خالد مسعود، جہانگیر رحمان، نجیب ہارون، سیما ضیاء، ثمر علی خان، احد رشید، محمود الرشید، عمران اسماعیل، شاہ فرمان اور اسد قیصر نے کھولے تھے۔