کون کون آرمی چیف نہیں ہوگا، فیصلہ ہو گیا

کون کون آرمی چیف نہیں ہوگا، فیصلہ ہو گیا
اسلام آباد میں ایک بار پھر آرمی چیف کی تعیناتی کا معاملہ خبروں کی زینت بن رہا ہے اور اب تازہ ترین اطلاعات ہیں کہ شاید یہ اعلان اگلے چند ہی دن میں ہو جائے کہ پاکستان کا اگلا آرمی چیف کون ہوگا۔

اس حوالے سے سینیئر صحافی عمر چیمہ اور اعزاز سید نے اپنے یوٹیوب چینل ٹاک شاک پر ایک پروگرام کے دوران تازہ ترین اطلاعات سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ابھی تک یہ فیصلہ تو نہیں ہو سکا کہ آرمی چیف کون ہوگا لیکن کون نہیں ہوگا، یہ بات طے ہو چکی ہے۔

اعزاز سید کے مطابق گذشتہ ہفتے وزیر اعظم ہاؤس میں ایک اجلاس ہوا جس میں پاکستان کی حکمران جماعتوں کے نمائندگان شریک تھے۔ اس اجلاس کی سربراہی شہباز شریف کر رہے تھے۔ اس اجلاس کی اہم بات یہ تھی کہ وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ ہمیں کچھ فیصلے قبل از وقت کر لینے چاہئیں۔ "یہ فیصلے اس لئے کر لینے چاہئیں تاکہ ابہام ختم ہو جائے۔ لیکن انہوں نے کھل کر بات کیوں نہیں کی؟ جب ہم نے کچھ ان کے قریبی ساتھیوں سے پوچھا تو پتہ چلا کہ وزیر اعظم ہاؤس میں ہمارے وزرا اور خود وزیر اعظم بھی کھل کر بات کرنے سے گریزاں ہیں کیونکہ انہیں ڈر ہے کہ کہیں ان کی باتیں ریکارڈ نہ ہو رہی ہوں"۔

سینیئر صحافی کا کہنا تھا کہ اب وزیر اعظم شہباز شریف اپنے بھائی نواز شریف سے رابطہ کرنے کے لئے بھی واٹس ایپ پر اعتباز نہیں کر رہے کیونکہ ان کو لگتا ہے کہ یہ بھی محفوظ نہیں ہے۔

تین لوگوں کے نام فائنل ہو چکے کہ یہ آرمی چیف نہیں بن سکتے

اس موقع پر اعزاز سید نے بتایا کہ آرمی چیف کے تقرر کا فیصلہ تین لوگوں کے ہاتھ میں ہے۔ ایک ہیں وزیر اعظم شہباز شریف جن کے پاس دستخط کا اختیار ہے۔ ایک ہیں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ جنہوں نے اشاروں کنایوں میں ایک جنرل کو آرمی چیف بنانے کا مشورہ دیا ہے لیکن واضح طور پر نام نہیں لیا۔ تیسرے شخص ہیں نواز شریف صاحب جو مسلم لیگ ن کے قائد ہیں۔

"آصف علی زرداری کا کردار اس میں کم ہے حالانکہ پہلے توقع کی جا رہی تھی کہ یہ کردار ادا کریں گے لیکن انہوں نے بعد میں کہا کہ ہمارے مشورے پر عمل کرنا ہے تو ہم سے مشاورت کریں ورنہ ہمیں باہر ہی رہنے دیں۔"

اعزاز سید کے مطابق شہباز شریف، نواز شریف اور آرمی چیف تینوں کے نزدیک تین الگ الگ لوگ فیورٹ ہیں۔ آرمی چیف نے کوئی نام لیے بغیر بتا دیا ہے کہ ان کے نزدیک بہترین امیدوار کون ہے۔ شہباز شریف بھی ایک صاحب کو تعینات کرنا چاہتے ہیں جب کہ نواز شریف کا کہنا ہے کہ سب سے سینیئر جنرل یعنی لیفٹننٹ جنرل عاصم منیر کو آرمی چیف لگا دیں۔

عمر چیمہ نے یاد کروایا کہ نواز شریف کا اپنا تجربہ تو یہی ہے کہ سینیئر اور جونیئر سے فرق کوئی نہیں پڑتا۔ لیکن اعزاز سید کا کہنا تھا کہ آج کل ہوا شہباز شریف کی چلی ہوئی ہے۔ عمران خان صاحب کی ہوا نکلی ہوئی ہے اور انہیں یہ اندازہ ہو چکا ہے کہ ایک خاص حد سے آگے وہ نہیں جا سکتے اور آگے اب وہ شاید جائیں گے بھی نہیں۔

اعزاز کا کہنا تھا کہ ایک بات کا فیصلہ ہو چکا ہے، اور وہ یہ کہ کس کس کو آرمی چیف نہیں لگانا۔ اب کہانی تین لوگوں پر آ کر رک گئی ہے۔ "پہلے تھا کہ 6 سے 7 لوگوں میں سے ایک کو چنا جائے گا۔ پھر خواجہ آصف نے کہا 5 ناموں میں سے ایک کو تعینات کیا جائے گا۔ اب رہ گئے ہیں تین، جن میں سے ایک نواز شریف کے پیارے ہیں، ایک شہباز شریف کے اور ایک آرمی چیف کے۔"

عمران خان کے اسلام آباد آنے سے پہلے نئے چیف کی تقرری کا اعلان؟

اعزاز سید نے عمر چیمہ کو بتایا کہ وفاقی حکومت اس تجویز پر سنجیدگی سے غور کر رہی ہے کہ عمران خان کی اسلام آباد آمد سے پہلے ہی نئے آرمی چیف کی تقرری کا اعلان کر دیا جائے۔



یاد رہے کہ ماضی میں جنرل ایوب خان نے دو مرتبہ مدتِ ملازمت میں توسیع لینے کے بعد تیسری دفعہ جب مدتِ ملازمت مکمل ہونے لگی تو اس سے پہلے ہی مارشل لاء لگا دیا تھا۔ جنرل ضیاالحق کو اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے نویں نمبر سے اٹھا کر آرمی چیف لگایا لیکن انہوں نے بھٹو حکومت کا ناصرف تختہ الٹا بلکہ ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل بھی ان کے دورِ حکمرانی میں ہی ہوا۔ جنرل پرویز مشرف کو ہٹا کر ان کی جگہ نیا آرمی چیف تعینات کیا گیا تو انہوں نے 1999 میں نواز شریف حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا۔ جب کہ جنرل قمر جاوید باجوہ کے سیاسی کردار پر بھی بہت سے سوالیہ نشان ملک کی تقریباً تمام سیاسی جماعتیں لگا چکی ہیں۔ لہٰذا یہ بات تو طے ہے کہ آرمی چیف کوئی بھی ہو، جمہوریت کی بقا کی پاکستان میں گارنٹی کوئی نہیں دے سکتا۔