بالآخر آشرباد ہٹ گیا، دو قیادتیں ایک پیج پر نہ رہیں

بالآخر آشرباد ہٹ گیا، دو قیادتیں ایک پیج پر نہ رہیں
حقیقت کی مخالفت کچھ عرصے کے لئے تو آپ کو چمکتی دنیا میں رکھ سکتی ہے مگر تاریخ کے صفحوں میں آپ کا کردار کالی سیاہی سے بھی سیاہ بنا دیتی ہے۔ پاکستان کے معرض وجود میں آنے سے آج تک 35 سالہ سول اقتدار کا دور بھی جمہوریت اور سول بالادستی کو مضبوط کرنے کی بجائے کمزور ہی کرتا رہا ہے کیونکہ سول حکومتیں بھی آمریت کے آشرباد کے ساتھ آتیں رہیں چلتیں رہیں اور جب کبھی آشرباد کے لئے جھکی پشت اٹھنے کی کوشش کی گئی تو 70 سالہ تاریخ میں سول رہنماوں کا جو حال ہوا اس کی تفصیل اب تو بچہ بچہ رٹ چکا ہے۔

پاکستان کی سول حکومتوں کی تابعداری کی تو ایک لمبی داستان ہے ذوالفقار علی بھٹو کے ایوب کابینہ کے مشیر وزیر سے شروع کریں یا ضیاء کے نواز شریف تک آئیں ہر جگہ تابعداری کے مقابلوں میں ریکارڈ قائم کئے گئے مگر موجودہ بر سر اقتدار حکومت اور ماضی کی حکومتوں میں تابعداری میں ایک واضح تبدیلی آئی ۔ماضی کی حکومتیں آشر باد دینے والوں کی غلطیاں کوتاہیاں غیر آئینی احکامات کی تابعدار تھیں اور ان کا دفاع کرتی تھیں مگر موجودہ دور میں جدت یہ آئی کہ سول حکومت تو تابعداری میں کئی درجے آگے ہے تو ہے مگر ؔآشر باد دینے والے بھی تابعدار کی حماقتوں کا 3 سالوں میں کئی دفعہ کھل کر دفاع کرتے نظر آئیں ہیں ۔

پاکستان کی تاریخ میں ایک معقولہ سول حکومتوں کے ادوار میں جب بھی زبان زد عام ہوتا ہے تو یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ ابھی اس حکومت کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے اور غیر آئینی اور غیر جمہوری کوئی طاقت ان کو گھر بھیجنے میں دلچسبی نہیں رکھتی وہ جملہ ہوتا ہے کہ "ملک کے تمام ادارے ایک بیج پر ہیں " لیکن حیرت کی بات یہ ہے پچھلے 3 سالوں میں یہ جملہ ہر دو سے تین ماہ بعد دہرا کر اپنی مضبوطی کا یقین دلایا جاتا تھا مگر اب حالات یہ ہیں کہ کچھ انتہائی احمقانہ بیانات سے سول حکومت کی بیج میں بیوقوفانہ طور پر جانے انجانے میں تبدیلی ہوتی نظر آ رہی ہے ۔اس حوالے سے یوں تو باتیں کئی جگہ زباں زد عام ہیں اور حالات و واقعات بھی اس کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ ایک دفعہ پھر کوئی سول شخص ذوالفقار علی بھٹو کی طرح اپنے بیانات کی بنیاد پر پاکستانی عوام سمیت دنیا بھر میں ڈسکس ہونے میں اپنی دلچسبی بڑھاتا جا رہا ہے ۔ آشر باد والوں کے دئیے دائرئے کو تجاوز کر رہا ہے کیونکہ وہ اپنے غیر ذمہ دارانہ بیانات کی بنیاد پر چلنے والے ٹویٹر ٹرینڈز سے بہت خوش ہوتا ہے اور سمجھتا ہے شاید ایک سول لیڈر کی شہرت اور کامیابی صرف ٹویٹر فیس بک پر ہر وقت زیر بحث رہنا ہے ۔

خوشامد پرستوں کے جتھے اور کند ذہن عوام کے گروہ کو خوش کرنے کی خاطر ملکی معاملات کو نظر انداز کر کے خارجہ پالیسی کی بینڈ بجانے والے بیانات دیناکبھی دنیا کی سپر پاور کو منہ پھاڑ کر انکار کرنا ہو یا پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کر بغیر اداروں کو اعتماد میں لئے خارجہ پالیسی سے متعلق موقف داغ دینا ہو ۔

یہ تمام حالات و واقعات کا رد عمل صرف خان صاحب کے حق میں ٹویٹر مہم پر ہی ختم نہیں ہوا بلکہ اس کا خمیازہ مختلف صورتوں میں اس ملک نے بھگتنا شروع کر دیا عالمی سطح پر افغان امریکہ معاملات میں جہاں پاکستان کا کردار اہم ہے وہیں خدشات اور خطرات بھی پاکستان کے سر پر منڈلا رہے ہیں ۔پاکستان کی پوزیشن عالمی سطح پر اہمیت کی حامل ہے ۔ایسے موقع پر تاریخ گواہ ہے کہ قرض میں ڈوبے اور اپنے اثاثہ جات کو گروی رکھ کر بھاگ دور سنبھالے ممالک میں کوئی نا کوئی اہم اقتدار کی تبدیلی رونما ضرور ہوتی ہے وہ چاہے جمہوری ہو یا آمریت زدہ اسسے فرق نہیں پڑتا ہے۔ایسے واقعات کے رونما ہونے میں جس سے ملک میں جمہوری استحکام ڈی ریل ہو اس میں موجودہ حکومت نے ویسے ہی کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے ۔ مشیروں وزیروں سے گلا تو تب ہو جب حکمران وقت اپنی چرب زبانی سے باز رہے بجائے اس کے کہ عالمی سطح پر پاکستان کے امیج کو مفاہمتی اور سفارتی طریقے سے نبھایا جائے ہمارے وزیر اعظم ایسے اہم موقع پر انتہائی غیر ذمہ درانہ بیان دے کر ہمیں مزید مشکلات میں گرا رہے ہیں ۔سول حکومت اور قیادت کے غیر سنجیدہ بیانات سے جہاں اہل علم میں تشویش ہے وہیں ملکی اداروں میں بھی باز گشت جاری ہے کہ آخر یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔

ان معاملات پر معروف صحافی وجاہت مسعود نے حال ہی میں ایک ٹویٹ کر کے اس بات کا اندیشہ ظاہر کیا ہے کہ سول ملٹری قیادت میں دوریاں بڑھنا شروع ہو گئے ہیں ۔ وجاہت مسعود کا کہنا تھا کہ "پاکستان چلانے والے آج واقعی جان گئے کہ عمران خان اصل سیکورٹی رسک ہے۔ پاکستان کا جو ریاستی، سیاسی اور سفارتی وقار بچ گیا ہے، عمران خان اسے تباہ کرنے کے درپے ہے۔ یہاں سے آگے عمران اور اسٹیبلمنٹ میں کھلا تصادم ہے۔ معاشی اور سیاسی مشکلات ہوں گی۔ کھیل ختم ہو رہا ہے۔"

اس سے قبل بھی وجاہت مسعود وزیر اعظم کی حالیہ ایون کی تقریر کو سفارتی تعلقات پر حملہ سمجھتے ہوئے کہتے ہیں کہ "عمران خان ایک عظیم قائد ہیں۔ افغانستان کے بارے میں پارلیمنٹ کے فلور پر ان کی پالیسی تقریر دہشت گردوں کی ایسی کھلی حمایت ہے جس کی جرات دنیا کا کوئی رہنما نہیں کر سکتا۔"

ان تمام معاملات پر ایک سابقہ برگیڈئیر سے بات ہوئی تو انہوں نے عمران خان کی اڈے نہ دینے والے بیان پر کہا کہ اس کے آفٹرشاک شروع ہو گئے ہیں آپ لوگ بس اب تیار رہیں ۔برگیڈئیر صاحب کا نام یا اصل مکمل بات تو شاید مشکلات کا باعث بنے مگر کھلے اور چھپے الفاظ میں یہ کہ وزیر اعظم کے اس غیر ذمہ دارانہ بیان پر عالمی سطح پر کافی تشویش پائی جا رہی ہے حالانکہ اڈے دینے نہ دینے کا اختیار کس کے پاس ہے یہ ایک الگ بات ہے مگر بطور چیف ایگزیکٹو پاکستان عمران خان کا یہ بیان پوری دنیا میں نا صرف نشر ہوا بلکہ پاکستان کے لئے کسی سفارتی اور مفاہمتی پالیسی سے بالا ہو کر مشکلات کا باعث بن رہا ہے۔ ایف اے ٹی ایف مسلسل گرے لسٹ میں ہماری پوزیشن رہنا اور اس کے بعد وزیر خارجہ کا ایف اے ٹی ایف کو جانبدار کہنا ان سب باتوں سے ملک کی پالیسی اور اقدامات کا اہم اور گہرا تعلق ہے۔
خطے کی تازہ صورتحال کو مدنظر رکھتے ماہرین کا کہنا ہے کہ عید قرباں کے بعد کئی قسم کی قربانیاں پورے خطے میں ہونے کا اندیشہ ہے اور پاکستان خطے کی اس جغرافیائی سطح پر موجود ہے جہاں وہ ان سب سے دور نہیں رہ سکتا لہذا ایسے معاملات میں پاکستان کی تمام قیادتوں کا ایک پیج پر ہونا انتہائی اہم ہے اور ایک نیشنل پالیسی کی ضرورت ہے جو کہ سفارتی سطح پر بیان کیجائے نا کہ اسمبلی کی تقریروں اور میڈیا کے انٹرویوز میں بیان کی جائیں۔

عظیم بٹ لگ بھگ 8 برسوں سے صحافت کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ بطور سماجی کارکن ملکی و غیر ملکی میڈیا فورمز اور ٹیلی وژن چینلز پر پاکستان کا مؤقف پیش کرتے ہیں۔ سردست وہ سماء ٹی وی کے ساتھ بطور ریسرچر اور پروڈیوسر وابستہ ہیں۔ ان کا ٹویٹر ہینڈل یہ ہے؛ Azeembutt_@