ایک پیج پر کوئی کیا رہتا جب ورق ہی پھٹ گیا

ایک پیج پر کوئی کیا رہتا جب ورق ہی پھٹ گیا
آرمی چیف جب پینٹاگون کے دورے پر گئے تو میں بھی ان کے ہمراہ تھی لیکن وہاں ہمارے آرمی چیف کو جب سیکرٹری آف ڈیفنس (امریکی وزیر دفاع) کے ساتھ ملاقات کا بلاوا آیا تو انہوں نے مجھے وہیں رکنے کا کہا۔ لہٰذا میں دیر تک باہر انتظار کرتی رہی اور پھر جنرل آصف نواز لگ بھگ 2 گھنٹے طویل ملاقات کر کے باہر نکلے تو بے حد ہشاش بشاش اور پراعتماد نظر آرہے تھے، اور قدرے پرجوش بھی۔ انہوں نے مجھے نہایت پراعتماد لہجے میں کہا اب میں مناسب موقع پر نوازشریف کو فارع کر دوں گا۔

یہ واقعہ امریکہ میں اس وقت متعین پاکستانی سفیر سیدہ عابدہ حسین نے اپنی زندگی کے سیاسی سفر کے اہم واقعات اور یاداشتوں پر مبنی اپنی کتاب POWER FAILURE میں لکھا ہے۔

مگر، ہمارا گکھڑ منڈی والا جٹ 21 توپوں کی سلامی سے بھی رام نہیں ہوا، کیوں کہ بیجنگ سے اس کے رشتے مضبوط ہو چکے تھے اور وہ اپنی کمٹمنٹ نبھانے کا عہد کر چکا تھا۔ بالآخر سی پیک کو برداشت کرنے سے انکاری طاقت نے خود کو جب اپنے دیرینہ تابعدار ادارے سے مایوس ہوتے پایا تو اسے کمزور کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس مقصد کے لئے ریاستی ٹرائیکا کے دوسرے طاقتور کھلاڑی کا سہارا لینے کا فیصلہ ہوا۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے پاکستان میں اقتدار کی تثلیث جسے عرف عام میں ٹرائیکا کہا جاتا ہے۔ اس کے 2 طاقتور ارکان آمنے سامنے آ کھڑے ہوئے۔ جن کے مابین پانامہ کیس کے دنوں خاص کر 2018 کے الیکشن کے وقت ہم آہنگی مثالی تھی اور پورے یقین سے کہا جاتا تھا کہ سارے پلیئر ایک پیج پر ہیں۔

لیکن، کوئی کب تک ایک پیج پر رہ پاتا، جب ورقا ہی پھاڑ دینے کی ٹھان لی گئی تھی۔ بتایا جاتا ہے کی پچھلے دنوں ساڑھے 7 گھنٹے والے اجلاس میں زیر بحث آنے والے اہم ترین نکتے پر اتفاق رائے حاصل نہیں کیا جا سکا تھا۔ جس کی وجہ سے اس طویل بیٹھک بارے کوئی اعلامیہ جاری ہو سکا نہ کوئی بریفنگ۔ چنانچہ اختلاف کی صورتحال سے فائدہ اٹھانے کی کوششیں شروع ہو گئیں۔

بتایا جاتا ہے کہ انہی دنوں حال ہی میں جانے والے چیف کو فیض ملا، اور فیض ہر ایک کو تو نہیں ملتا۔ چنانچہ جانے والے باس نے فیضیاب ہوتے ہی فوری رابطہ کر کے فیض سگالی کے جذبات خصوصی والے چیف تک پہنچا دیے، جس کے نتیجے میں ایک دھانسو فیصلہ بھونچال بن کر سامنے آ گیا۔

تین دہائی پہلے آرمی چیف جنرل اسلم بیگ نے بریگیڈیئر بلا کو گرفتار کروایا تو لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس فضل کریم نے اس کی ضمانت منظور نہیں کی تھی۔ چلیں بیٹے نے ایک دوسرے آرمی چیف کے حوالے سے دلیرانہ فیصلہ دے کر تاریخ بنا دی۔ جبکہ، ڈیرہ اسماعیل خان سے تعلق رکھنے والوں کا اپنے ہوم ٹاؤن کے ساتھ ساتھ اپنے شہر واسی مولانا فضل الرحمان سے بھی تعلق ایک پیج والا بتایا جا رہا ہے۔

بتایا جا رہا ہے کہ آنے والے 2 سے تین ہفتوں میں حالیہ چھکا لگانے والے ادارے اور اس کی حمایت میں کھل کر سامنے آنے والی سیاسی قوتوں کے خلاف طلاطم خیز اقدام سامنے آنے کا خدشہ ہے۔ اس کے علاوہ حساس ایجنسیوں کے ذریعے نیچے سے اوپر تک ججوں بارے خفیہ سکروٹنی رپورٹس بنوانے پر بھی سنجیدگی سے غور ہو رہا ہے۔ یہ دیکھا جائے گا کہ کون کون سے جج کی تقرری کے پیچھے کون کون سی سیاسی جماعت اور کون کون سے لا چیمبر کا ہاتھ ہے۔

امریکہ کے لئے چین کے بڑھتے ہوئے غلبے کو روکنا اس قدر اھم ہو چکا ہے کہ NATO کے حالیہ سربراہی اجلاس میں چائنا فیکٹر خصوصی طور پر زیر بحث لایا گیا۔ چین کے غلبے کے آگے بند باندھنے کو باقاعدہ NATO کے ایجنڈے میں شامل کر دیا گیا۔ امریکہ بہادر نے جنوبی ایشیا اور مشرق وسطی میں اپنے اہداف کے حصول کے لئے سنٹرل کمانڈ کی جگہ انڈو پیسفک کمانڈ کو متحرک کر دیا ہے۔ جبکہ، دوسری طرف چین بھی خطے کے معاملات اور اس سے جڑے امریکی عزائم بارے اس قدر چوکس ہے کہ پاکستان اور بھارت میں جنگ کروانے کا امریکی منصوبہ اس وقت ناکام ہو گیا جب چین اور روس نے بروقت پاکستان کو اس سے آگاہ کرتے ہوئے امریکی جال میں آ جانے سے باز رکھا۔

امریکی منصوبے کے تحت اس مختصر سی مُجوزہ پاک بھارت جنگ کے دوران مداخلت کرتے ہوئے کشمیر میں اقوام متحدہ کی فوجوں کو اتارا جانا اور پھر چین کے خلاف یہاں امریکی اڈے قائم کرنا مقصود تھا۔ امریکہ کو اس ضمن میں بھارت کا تعاون پہلے ہی حاصل ہو چکا ہے۔

تاہم چین، پاکستان بالخصوص سی پیک کی سیکیورٹی کے حوالے سے اس قدر چوکنا ہے کہ پچھلے دنوں پی سی ہوٹل گوادر پر دہشت گرد حملے کے موقع پر چینی کمانڈوز پاکستانی سیکورٹی اہلکاروں سے بھی پہلے پہنچ کر دہشت گردوں پر قابو پا چکے تھے۔ جب دہشت گرد ہوٹل کے ایک سیکیورٹی گارڈ کو قتل اور دوسرے کو زخمی کر کے فائرنگ کرتے ہوئے ہوٹل کے اندر گھسنے میں کامیاب ہو چکے تھے۔ واضح رہے چین نے گوادر پورٹ پر ایک نیول فلیٹ کی آڑ میں مسلح سیکیورٹی دستہ تعینات کیا ہوا ہے۔

ادھر ملک کے سیاسی محاذ پر بھی عظیم دوست ہمسائے کا اثر و نفوذ بڑھتا جا رہا تھا جس نے پاکستان میں سول سیٹ اپ کی سیاسی حریفوں کو فکس کرنے کی سخت پالیسی پر اپنے تحفظات ظاہر کرنا شروع کر دیے تھے۔ ملک میں داخلی استحکام لائے جانے پر اور اس مقصد کے لئے اپوزیشن کے سیاست دانوں کو space دیے جانے پر زور دینا شروع کر دیا تھا۔ پھر جونہی لاہور ہائیکورٹ سے نوازشریف کی ضمانت پر رہائی کا فیصلہ سامنے آیا۔ چینی حکومت کی ویب سائٹ پر پاکستان میں متعین چینی سفیر کا خیر مقدمی بیان بھی سامنے آ گیا۔ اگرچہ چند گھنٹوں بعد سرکاری ویب سائٹ سے ہٹا دیا گیا۔

بتایا جاتا ہے کہ بیجنگ ہمارے ارباب اختیار پر مسلسل زور دے رہا ہے کہ پاکستان میں داخلی استحکام لانے کے لئے تمام ضروری اقدام اٹھائے جائیں۔