اسٹیبلشمنٹ اور حکومت: 'مناسب فاصلہ رکھیں کی پالیسی نافذ ہوچکی'

اسٹیبلشمنٹ اور حکومت: 'مناسب فاصلہ رکھیں کی پالیسی نافذ ہوچکی'
ویسے تو ملک خدا داد میں جو بھی اقتدار کے مست ہاتھی کی سواری کرنے میں کامیاب ہوا وہ وہ اس کے مہابت کی بدولت ہی یہ سب کرسکا۔  لیکن موجودہ فیل سوار خان خاناں آخری تین دہائیوں کی سب سے لاڈلی سواری ہے جن کی باری مہابت خوشی سے ان کی سیر میں حائل ہر رکاوٹ ہٹانے میں کوشاں رہتا ہے۔

بظاہر حکمرانی کے اس چڑیا گھر کی پر پیچ پگڈنڈیوں پر جاری یہ سواری ایک  خوش کن سفر ہے کہ جس کا نظارہ ہی دیکھنے والوں کو ایک عجب سرور بخشتا ہے۔ لیکن شاید تماش بینی سے عاری ساعتوں میں یہ  ایک عام سے سودے کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ سادہ سے سودا۔ نظریہ ضرورت۔ مہابت کو ہاتھی کے لیئے خان خاناں جیسا سوار درکار ہے اور خان خاناں کو ہاتھی کی سواری کے لیئے ایک ہاتھی بمع مہابت کہ ہاتھی کی از خود سواری خان خاناں کے بس کی بات نہیں جس کا انہیں بخوبی ادراک ہے۔

تاہم اندر کی خبر رکھنے والے اب کہہ رہے ہیں کہ صاحب تماش بین اب ہاتھی کے سوار سے بور ہو چکے ہیں اور بار بار ایک جیسی پیشکش پر مہابت سے چڑنے لگے ہیں جس کا کہ اسکو احساس ہونے لگا ہے۔ چاہے اسکو نہ ہو اس کے قبیلے کو ضرور ہوچکا ہے اور وہ اسے سمجھانے پر مصر ہے۔

تمثیلات کو آخری بار استعمال کرکے ایک طرف کیا جائے تو چڑیا گھر کی گہری گن سن رکھنے والے وڑائچی النسل عقاب صفت صحافی سہیل وڑائچ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ اب وزیر اعظم عمران خان سے فاصلہ رکھو کی پالیسی پر آچکی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کپ ویسے بھی اوپر اور نیچے کی سوچ میں فرق ہے۔ اوپر سب کچھ اوکے ہے اور سمجھا جا رہا ہے کہ ہمارے اور حکومت کے فائدے اور نقصان ایک ہیں، ہماری آپس کی لڑائی ہوئی تو دونوں کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچے گا۔ حکومت کو کم نقصان ہو گا اور ہمیں اس کا زیادہ نقصان ہو گا۔

نیچے کی سوچ یہ ہے کہ حکومت کی غلطیاں حکومت کے کھاتے میں پڑنی چاہئیں اور اگر حکومت کارکردگی دکھانے میں ناکام ہے تو اس کا ’’کور اپ‘‘ بند کر دینا چاہئے۔ نیچے اور اوپر کے درمیان مباحث کے بعد اب اندازہ یہ ہے کہ معاملہ غیرجانبداری کی طرف بڑھ رہا ہے مگر اس غیرجانبداری میں بھی حکومت کی جانبداری پنہاں ہے کیونکہ غیرجانبداری کے باوجود اسے نکالنا نہیں ہے،

اس کے 5سال پورے کروانے ہیں، نہ اسے نکالنے کی سازش کرنی ہے اور نہ ہی اسے نکالنے کی کوشش میں مدد کرنی ہے۔ گویا حکومت کو ہر صورت میں چلانا ہے تبدیلی البتہ صرف اس بات میں ہے کہ ہر سیاسی کھیل میں حکومت کے ساتھ جڑ کر کھڑے ہونے کی پالیسی جاری نہیں رکھنی بلکہ سیاست سے تھوڑا سا ہٹ کر رہنا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ غیرجانبداری کی تجویز نیچے سے اوپر گئی ہے۔ نیچے والوں کو معاشرتی دباؤمحسوس ہو رہا تھا اور انہیں یوں لگ رہا تھا کہ انہیں ان ناکردہ غلطیوں کا بھی ذمہ دار ٹھہرایا جا رہا ہے جن میں ان کا کوئی کردار نہیں ہوتا اور پھر انہیں یہ بھی گلہ ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب اور وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کو تبدیل کرنے کے حوالے سے ان کی تجاویز کو درخورِ اعتنا نہیں سمجھا گیا۔

سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ وہ اس پر بھی شکوہ کناں رہتے ہیں کہ وزیراعظم سیکرٹریٹ میں تبدیلیوں کے حوالے سے ان کی تجاویز کو نہیں مانا گیا۔ یہی وہ صورتحال تھی جس میں نیچے والے ہر میٹنگ میں یہ زور ڈالتے رہے کہ ہمیں حکومت سے تھوڑا سا فاصلہ پیدا کرنا چاہئے۔ بالآخر ان کی سنی گئی اور اب یہی سنایا جا رہا ہے کہ اوپر نیچے سب غیرجانبدار ہو گئے ہیں۔