پاکستان میں شراب کے استعمال کی تصویری کہانی

پاکستان میں شراب کے استعمال کی تصویری کہانی

(ندیم فاروق پراچہ)




جنوبی ایشیا میں شراب کشید کرنے والے قدیم ترین آلات۔ یہ آلات وادی سندھ کی تہذیب کے کھنڈرات سے ملے ہیں ۔ یہ کھنڈرات موجودہ صوبہ سندھ میں ہیں۔ شراب کشید کرنے والے یہ آلات 4000 سال پرانے بتائے جاتے ہیں۔ ٹیکسلا کے عجائب گھر میں موجود ان آلات کے بارے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ ان کی مدد سے تیل اور الکحل مشروبات کشید کیے جاتے تھے۔


 


 




ایک قدیم پینٹنگ میں ایک ہندو دیوی کو سوما پیتے ہوئے دکھایا گیا ہے ۔ سوما ایک شراب تھی جسے جنگلی کھمبیوں اور کچھ دیگر پودوں سے کشید کیا جاتا تھا۔ اس مشروب کا اولین ذکر ہندووں کی مقدم کتاب ’’رگویدا‘‘ میں ملتا ہے ۔ یہ کتاب تین ہزار سال پہلے لکھی گئی ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ رگویدا شراب سے پرہیز کرنے کی تلقین کرتی ہے ، لیکن سوما کو مقدس مشروب قرار دیتے ہوئے اسے تیار کرنے اور پینے کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔


 


 




تیسری صدی کی چمکدار پتھروں سے مزیّن ایک نقاشی شراب کے یونانی دیوتا، ڈیونیسس کو بگھی میں ایک انگوروں کے باغ میں سے گزرتا دکھاتی ہے ۔ کچھ اولین یونانی ذرائع بھارت پر اسکندرِ اعظم کے حملے (2,342 سال پہلے) کے دوران انگوروں سے لدے ہوئے باغات کا ذکر کرتے ہیں۔ یہ غالباً پاکستان میں موجود وادئ سوات کا ذکر ہے ۔ ایک قدیم راوی اس منظر کو اس طرح بیان کرتا ہے جیسے شراب کا دیوتا ڈیونیسس اسکندر سے بھی پہلے یہاں سے گزرا ہو۔


 


 




ساتویں صدی میں ایک مشہور چینی سیاح اوسن زانگ نے ان علاقوں کی سیاحت کی جو آج کل پاکستان کے صوبے خیبر پختونخواہ میں شامل ہیں۔ اُس نے لکھا ، ’’یہاں کے آدمی اور عورتیں، دونوں پھولوں سے شراب تیار کرتے ہیں۔‘‘ اُس نے یہ واضح نہیں کیا کہ اس مقصد کے لیے کون سے پھول استعمال کیے جاتے تھے۔ اُس نے یہ لکھا ہے کہ آدمی طاقتور اثر رکھنے والے مشروبات کشید کرتے ہیں۔ یہ خطہ اُس وقت بدھ مذہب کو ماننے والے بادشاہ ، ہرشا کی قلمرو میں شامل تھا۔


 


 




سولویں صدی میں مغل درباری شراب سے لطف اندوز ہوتے تھے ۔ زیادہ تر سلاطینِ دہلی (1206---1526) اور ہندوستان میں مغل بادشاہ (1526---1857) مقامی اور غیر ملکی شراب پیتے تھے ۔ صرف دوبادشاہوں نے الکحل مشروبات پر پابندی لگائی۔ یہ بادشاہ علاوہ الدین خلجی(1296--1316) اور اورنگ زیب (1658--1707) تھے ۔ پابندی کے باوجود ملک میں شراب کشید کی جاتی رہی ، اور لوگ اسے خریدتے اور پیتے رہے ۔


 


 




17 ویں صدی میں لاہور کے شرفا ٹوڈی سے لطف اندوز ہوتے تھے ۔ سولویں اور سترویں صدی میں ہندوستان آنے والے یورپی مسافروں کی تحریروں کے مطابق ٹوڈی کچے ناریل سے بنی ہوئی شراب تھی ۔ یہ اُس وقت ہندوستان کا سب سے پسندیدہ مشروب تھا۔ اسے خواص بھی پیتے تھے اور عام بھی ۔ آج بھی جنوبی ایشیا کے مختلف علاقوں، جن میں پاکستان کا صوبہ سندھ بھی شامل ہے ، میں ٹوڈی تیار کی جاتی ہے ۔


 


 




انیسویں صدی، اور اس کے بعد ہندوستان پر انگریزوں نے اپنا اقتدار مضبوط کرلیا تو یہاں برطانوی مشروبات کے برانڈز متعارف کرائے جانے لگے ۔ انگریزوں شراب کی تجارت کوقانونی شکل دیتے ہوئے اسے جدید ٹیکس کے نظام میں لے آئے ۔ آج بھی پاکستان اور انڈیامیں یہ نظام جاری ہے ۔


 


 




اگرچہ ہندوستان میں مقامی طور پر شراب کشید کرنے کی روایت موجود رہی ، لیکن 1860 ء میں انگریزوں نے یہاں میں پہلی مرتبہ شراب کشید کرنے کا جدیدپلانٹ لگایا۔ یہ گھوڑا گلی میں، اور پھر کوئٹہ میں لگایا گیا(یہ دونوں پاکستان میں ہیں)۔ یہ پلانٹ ’’مری بریوریز‘‘ (Murree Breweries) کہلاتا ہے ۔


 


 




1930 ء کی دہائی میں کراچی کے ملیر کے علاقے میں کھولا گیا ایک بار۔ 1930ء کی دہائی کے وسط تک روایتی مے کدوں کی جگہ بار ز اور کلبوں نے لے لی تھی ۔


 


 




1940ء کی دہائی میں ایک پارسی بزنس فیملی نے مری بریوریز کو خرید لیا۔ پاکستان بننے کے بعد اُس خاندان نے اس نئے ملک کی شہریت اختیار کر لی ۔ مری بریوریز پاکستان میں شراب کشید کرنے والی سب سے بڑی کمپنی ہے ۔


 


 




1960ء میں ایک اردو اخبار میں وسکی کے ایک برانڈ، جانی والکر کا اشتہار۔ مری کو درآمد شدہ وسکی اور بیئر سے کاروباری مسابقت درپیش تھی۔ درآمد شدہ مشروبات شراب کی دوکانوں، باز اور نائٹ کلبس، خاص طور پر کراچی اور لاہور میں عام دستیاب تھے ۔


 


 




1962ء میں لاہور کی ایک عمارت پر مری بیئر کا نیون سائن۔


 


 




1964: ڈان اخبا ر میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ، جس کے مطابق برطانیہ کے مشہور پاپ بینڈ ، ’’دی بیٹلز‘‘ کے فنکار کراچی ایئرپورٹ کے ایک بار پر ٹوٹ پڑے اور مشروبات سے لطف اندوز ہوئے ۔ وہ بینڈ ہانگ کانگ جاتے ہوئے کراچی رکاتھا۔


 


 




پاکستان کے صدر، ایوب خان انڈونیشیا کے صدر سکارنو کے ساتھ کراچی میں شمپئن کا ایک جام پیتے ہوئے۔


 


 




1967 اور اس کے بعد پاکستان انٹر نیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) کا مینیو۔ اُس وقت پی آئی اے کا شمار دنیا کی بہترین ایئرلائنز میں ہونے لگا تھا۔ ہم وائن اور دیگر مشروبات کا بہترین انتخاب رکھتے ہیں(کتابچے کے اندر وائن کی فہرست ملاحظہ فرمائیں)۔ درجہ اول کے مسافروں کے لیے لنچ اور ڈنر سے پہلے کاک ٹیل اور بعد میں دیگر مشروبات کا اہتمام ہے ۔ عالمی قوانین کے مطابق ہم اکانومی کلاس کے مسافروں سے ان سہولیات کی تھوڑی سی قیمت وصول کرتے ہیں۔


 


 




1968ء میں غیر ملکی اور مقامی افراد کراچی کے بیچ لگژری ہوٹل میں کھانے اور مشروبات سے لطف اندوز ہوتے ہوئے ۔


 


 




1972ء میں این ڈبلیو ایف پی (موجودہ خیبرپختونخواہ) کی صوبائی حکومت نے وزیرِ اعلیٰ مفتی محمود کی قیادت میں صوبے میں الکحل مشروبات کی فروخت پر پابندی عائد کردی۔ اُس وقت نیشنل عوامی پارٹی اور دائیں بازو کی جماعت، جمعیت علمائے اسلام بھی صوبائی حکومت میں شامل تھیں۔


 


 




1973ء میں کراچی کے ایک ہوٹل میں خواتین شراب سے لطف اندوز ہورہی ہیں۔


 


 




1973 میں کراچی کے صدرکے علاقے میں موجود ایک بار۔


 


 




1973ء میں ذوالفقارعلی بھٹو(دائیں طرف)کی حکومت نے پاکستان بھر میں شراب کی فروخت پر پابندی کی قرار داد مسترد کر دی۔ یہ قرارداد مذہبی جماعتوں کی طرف سے پیش کی گئی تھی ۔ حکومت کا موقف تھا کہ اس کی توجہ دیگر بڑے ایشو ز پر ہے ۔


 


 




1974ء میں حکومت نے پاک فوج کے میس میں شراب پیش کرنے پر پابندی لگادی۔


 


 




1970ء کی دہائی میں مشہور اردو شاعر، حبیب جالب(بائیں طرف) کراچی کے ایک ریستوران میں شراب سے لطف اندوز ہوتے ہوئے ۔


 


 




وزیرِ اعظم پاکستان، ذوالفقار علی بھٹو امریکی سیکرٹری آف اسٹیٹ، ہنری کسنجر کے ساتھ ڈرنک شیئر کرتے ہوئے ۔


 


 




اگرچہ رمضان میں بارز اور شراب کی دکانیں بند ہوجاتی تھیں لیکن کراچی کے کچھ علاقے روزے کے اوقات میں سیاحوں اور مقامی افراد کے لیے مخصوص کردیے جاتے تھے ۔ ان علاقوں کو ٹینٹ وغیر ہ لگاکر بند کردیا جاتا۔ ان پر یہ اشتہار لگا ہوتا تھا...’’یہاں شرفا شراب پی سکتے ہیں۔‘‘رمضا ن کے بعد پھر بارز اور کلبوں کی رونق بحال ہوجاتی ۔


 


 




1976ء تک سمگل شدہ وسکی کے مختلف برانڈز این ڈبلیو ایف پی کی باڑا مارکیٹ کے شوکیسز میں دکھائی دیتے تھے ۔


 


 




مذہبی اور دیگر سیاسی جماعتوں نے 1977 ء کے متنازع انتخابات کے بعد ایک الائنس (پی این اے ) بنایا اور بھٹو کے خلاف پر تشدد تحریک شروع کردی۔ پی این اے کے رہنماؤں نے بھٹو صاحب کے ساتھ مذاکرات کے دوران جو مطالبات پیش کیے اُن میں دوبارہ انتخابات کا انعقاد، اپوزیشن کے گرفتار شدہ سیاست دانوں کی رہائی، نائٹ کلبوں اور بارز ، اور ملک میں الکحل کی مصنوعات پر مکمل پابندی شامل تھی۔ اس مرتبہ بھٹو حکومت اس پر راضی ہوگئی ۔


 


 




اپریل 1977ء میں بھٹو نے نائٹ کلب، بارز اور شراب کی دکانیں بند کرنے کا حکم دیا۔ حکومت نے الکحل کی ہر قسم کی مصنوعات کی فروخت پر پابندی لگادی۔ الکحل فروخت کرتے ہوئے پکڑے جانے والوں کے لیے کچھ جرمانہ اور چھے ماہ تک قید کی سزا رکھی گئی ۔تاہم غیر مسلموں کے لیے شراب دستیاب تھی۔ جولائی 1977 ء میں جنرل ضیا الحق نے شب خون مارتے ہوئے بھٹو حکومت کا تختہ الٹ دیا۔


 


 




فروری 1979ء : جنرل ضیا نے ملک پر آمریت مسلط کرتے ہوئے جس اہم اقدام کا اعلان کیا، وہ ’’اسلامی قوانین ‘‘ کا نفاذ تھا۔ شراب کی فروخت اور استعمال پر سخت سزا رکھی گئی ۔ ممانعت کے آرڈیننس کے مطابق ضیا حکومت شراب فروخت کرنے اور پینے کی پاداش میں 80 کوڑوں کی سزا دیتی ۔ تاہم یہ آرڈینس غیر ملکیوں اور پاکستانی غیر مسلموں کے لیے ’’لائسنس یافتہ شراب کی دکانیں‘‘ کھولنے کی اجازت دیتا تھا۔ ان دکانوں کو حکومت سے خصوصی اجاز ت نامہ حاصل کرنا پڑتا۔


 


 




ضیا حکومت نے منظم طریقے سے، جن کی بہت زیادہ تشہیر کی جاتی، سمگل شدہ مشروبات کو تلف کرنا شروع کردیا تو ہیروئن جیسے خطرناک نشے کے استعمال میں کئی گنا اضافہ ہوگیا۔ 1979 ء میں پاکستان میں ہیروئن کے نشے میں مبتلا افراد کے صرف دو کیسز سامنے آئے ، لیکن 1985 ء تک پاکستان میں ہیروئن کا نشہ کرنے والوں کی تعداد دنیا میں دوسرے نمبر پر تھی۔


 


 




1980ء کی دہائی میں غیر قانونی طور پر شراب فراہم کرنے والے مافیا کو بے پناہ ترقی ہوئی ۔چونکہ پابندی کی وجہ سے غیر ملکی شراب کی قیمت میں بے حد اضافہ ہوچکا تھا، اس لیے غیر معیاری اور جعلی شراب تیار او ر استعمال کی جانے لگی۔ اس کا استعمال ہلاکتوں کا باعث بننے لگا۔ اس کی وجہ سے بصارت کو بھی نقصان پہنچتا۔ کچھ جائزوں کے مطابق یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں کہ پاکستان میں 1979 ء کی پابندی کے بعد شراب کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ ہوا۔


 


 




2000ء کی دہائی کے ابتدائی برسوں میں آرمی چیف اور صدرِ پاکستان، جنرل پرویز مشرف نے 1979 ء کے آرڈینس میں ترمیم کرنے کی کوشش کی ۔ اُن کی حکومت کا موقف تھا کہ پابندی سے نہ صرف صارفین کو مشکلات کا سامنا ہے بلکہ اس کی وجہ سے مافیاز بھی وجود میں آچکے ہیں۔ اگرچہ اُن کی حکومت کے دوران شراب کے حصول کی کوشش کو قدرے آسان بنا دیا گیا، لیکن وہ پارلیمنٹ میں آرڈیننس میں ترمیم نہ کرا سکے ۔


 


 







تاہم 1981 سے لے کر اب تک کسی پاکستانی کو شراب فروخت کرنے اور پینے پر سزا نہیں ہوئی ہے۔ 2009 ء میں وفاقی شرعی عدالت نے کہا کہ اس جرم پر کوڑوں کی سزا (جیسا کہ 1979 کے آرڈیننس کہتا ہے) غیر اسلامی ہے ۔ عدالت کا کہنا تھا کہ مسلمانوں کی مقدس کتاب الکحل مشروبات پینے کی حوصلہ شکنی کرتی ہے لیکن اسے دوٹوک انداز میں منع نہیں کیا گیا ہے ۔ عدالت کا کہنا تھا کہ یہ مشروبات ’’حرام ‘‘ کے زمرے میں نہیں آتے ۔


 


 




2016ء میں سندھ( خاص طور پر کراچی) میں شراب کی دکانوں کے خلاف کیس کی سماعت کرتے ہوئے سندھ ہائی کورٹ نے حکومت کو ایسی تمام دکانیں بند کرنے کا حکم دیا۔ عدالت کا کہنا تھا یہ دکانیں 1979کے آرڈینس کے مطابق بزنس نہیں کررہی ہیں۔ تاہم مارچ 2017 ء میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے اس حکم نامے کو معطل کرتے ہوئے کہا سندھ ہائی کورٹ یہ حکم نامہ جاری کرنے کی مجاز نہیں تھی۔ یہ دکانیں دوبارہ کھول دی گئیں۔


 


 




سکہ بند شراب کی قیمت میں مسلسل اضافے کا رجحان پایا جاتا ہے ۔ پاکستان کے شہری اس کی قیمتوں میں کمی کا مطالبہ کرتے رہتے ہیں۔


 


 




حکومت ملک میں شراب کشیدکرنے والے تینوں پلانٹس ، مری، انڈس اور کوئٹہ سے بھاری ٹیکس وصول کرتی ہے ۔ ان پلانٹس پر ہزاروں غیر مسلم افراد کام کرتے ہیں۔ ان کا شمار ملک میں سب سے زیادہ ٹیکس ادا کرنے والی کمپنیوں میں ہوتا ہے ۔


 


اسلامی دنیا میں الکوحل کی مصنوعات کے بارے میں قوانین:


 




* الجریا (مکمل قانونی اجازت، لیکن رمضان میں ان کی فروخت پر پابندی ہوتی ہے )


* البانیہ (مکمل قانونی اجازت، لیکن صرف بارز اور مخصوص ریستورانوں میں ہی پینے کی اجازت ہے )


* آذر بائیجان (مکمل قانونی اجازت)


* (جزوی طور پر قانونی اجازت۔ 2010 ء میں حکومت نے ایسی بیئر فروخت کرنے کی اجازت دے دی جس میں پانچ فیصد یا اس سے بھی کم الکوحل ہو۔


* بحرین ((مشروط اجازت، لیکن صرف بارز اور مخصوص ریستورانوں میں ہی پینے کی اجازت ہے )


* بوسینا (مکمل قانونی اجازت)


* برونائی (مکمل قانونی پابندی)


* برکینا فاسو (مکمل قانونی اجازت)


* چاڈ (مکمل قانونی اجازت)


* کمروس (مکمل قانونی اجازت)


* مصر (مکمل قانونی اجازت)


* گیمبیا (جزوی اجازت۔ صرف غیر مسلموں کو فروخت کی جاسکتی ہے )


* انڈونیشیا (مکمل قانونی اجازت)


* ایران (مکمل پابندی )


* عراق (جزوی اجازت۔ اس کی فروخت کی صرف بغداد کے کچھ مقامات پر اجازت ہے )


* اردن (مکمل قانونی اجازت) * قازقستان (مکمل قانونی اجازت)


* کوسوہ (مکمل قانونی اجازت)


* کویت ( مکمل پابندی )


* کرغیزستان (مکمل قانونی اجازت)


* لبنان (مکمل قانونی اجازت)


* لیبیا (مکمل پابندی )


* ملائیشیا (مشروط اجازت۔ کچھ ریاستوں میں مکمل پابندی، جبکہ لائسنس یافتہ ہوٹلوں میں فراہم کی جاتی ہے )