'(ق) لیگ کے حوالے سے پی ٹی آئی میں خدشات بڑھنے لگے'

'(ق) لیگ کے حوالے سے پی ٹی آئی میں خدشات بڑھنے لگے'
پچھلے چند روز میں اگرچہ میڈیا کے سامنے چودھری پرویز الہیٰ اور مونس الہیٰ یہ بات کھلم کھلا کہتے نظر آئے ہیں کہ پنجاب کی وزارت اعلیٰ ان کے پاس عمران خان کی امانت ہے اور عمران خان جب چاہیں گے وہ پنجاب اسمبلی تحلیل کر دیں گے تاہم دوسری جانب میڈیا کی آنکھ سے بچ بچا کر عمران خان کو وہ یہ پیغام بھی بھیج رہے ہیں کہ اس وقت اسمبلی تحلیل کرنا دونوں پارٹیوں کے مفاد میں نہیں ہے۔ دراصل میڈیا کے سامنے وہ کچھ اور بات کر رہے ہیں جبکہ اندر کھاتے میں ان کا مؤقف کچھ اور ہے۔ پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان مسلم لیگ (ق) اس معاملے میں ایک پیج پر نہیں ہیں۔

روزنامہ 'ڈان' کے لیے اپنے 3 دسمبر کے مضمون میں منصور ملک نے لکھا ہے کہ ایک اور معاملہ جس میں دونوں جماعتیں ایک پیج پر نہیں ہیں وہ معاملہ سابق آرمی چیف جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کا ہے۔ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد سے پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان حکومت سے بے دخلی کا ذمہ دار جنرل باجوہ کو قرار دیتے آئے ہیں اور پاک فوج کی نئی قیادت آنے کے بعد بھی انہوں نے یہی بات دہرائی کہ پی ٹی آئی کی لڑائی فوج یا نئے آرمی چیف کے ساتھ نہیں بلکہ جنرل باجوہ کے ساتھ تھی۔ جبکہ دوسری جانب مونس الہیٰ نے یہ انکشاف کر دیا کہ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد جب پنجاب میں بھی پی ٹی آئی کی حکومت کو گرانے کی تیاریاں چل رہی تھیں تو جنرل باجوہ نے فون کر کے پرویز الہیٰ سے کہا کہ وہ عمران خان کے ساتھ کھڑے ہوں۔ مونس الہیٰ نے بتایا کہ جنرل باجوہ آخر تک عمران خان کے ساتھ کھڑے تھے۔

اگرچہ مونس الہیٰ کے انکشاف کے ساتھ یہ امکان پیدا کرنے کی کوشش کی گئی تھی کہ پی ٹی آئی کی قیادت اور ان کے حامی جنرل باجوہ کے بارے میں اپنے رویے میں تبدیلی لانے کے بارے میں غور کریں گے تاہم پی ٹی آئی کی قیادت اور ان کے حمایتی مونس الہیٰ کے بیان پر من و عن یقین کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ سوشل میڈیا پر مونس الہیٰ کے خلاف مہم چلائی جا رہی ہے۔

فواد چودھری نے اگرچہ (ق) لیگ کو پی ٹی آئی کا پکا اتحادی قرار دیا اور انہوں نے یہ بھی کہا کہ ماضی کی کارکردگی کی بنا پر فیصلوں اور تعلق کو پرکھنا غیر متعلق بات ہے جبکہ تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے سینیٹر اعجاز چودھری کا کہنا ہے کہ (ق) لیگ کی پوری کی پوری سیاست اسٹیبلشمنٹ کے اشاروں پر چلتی ہے، انہوں نے ماضی میں خود سے کوئی فیصلہ لیا اور نہ ہی آئندہ لے سکتے ہیں۔

ایک اور سینیئر پی ٹی آئی رہنما نے حال ہی میں بھرپور غصے میں عمران خان سے ملاقات کی اور انہیں بتایا کہ (ق) لیگ پر کسی صورت اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔ صرف 10 سیٹوں والی پارٹی کے پاس صوبے کی وزارت اعلیٰ ہے اور چودھری فنڈز کا بے دریغ استعمال کرکے اگلے الیکشن میں اپنی پارٹی کی سیٹیں بڑھانے کی سکیم پر کام کر رہے ہیں۔

ایک تیسرے رہنما نے بھی نام صیغہ راز میں رکھنا کی شرط پر یہی خدشہ ظاہر کیا کہ (ق) لیگ فنڈز اور مراعات کے ذریعے اپنا اثر و رسوخ پوری ڈویژن میں بڑھانا چاہتی ہے جس میں گجرات، منڈی بہاؤالدین اور سیالکوٹ کے علاقے شامل ہیں اور وہ آئندہ انتخابات میں اپنی سیٹیں دوگنی کرنا چاہتے ہیں۔