ارمان لونی کون تھے؟

ارمان لونی کون تھے؟
پختونخوا ایک ایسی دھرتی ہے جو تاریخ میں استعماری اور حملہ آور قوتوں کے لئے پرکشش رہی ہے۔ ایک تو اس کی جغرافیائی پوزیشن شاید دنیا کے لئے اہم ہے کیونکہ یہ ایشیا کی دل کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس لیے جو بھی دنیا پر قبضہ کرنا چاہتا تھا اس نے پہلے ہماری ہی سرزمین پر قبضہ کیا۔

سکندر یونانی، پارسیوں، مغلوں، سکھوں سے ہوتے ہوئے پھر انگریز سامراج نے یہاں اپنا لوہا منوانے کی کوشش کی۔ مگر ہر دور میں پشتون افغان ملت اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہر جابر اور استعمار کے خلاف ڈٹے رہے ہیں۔ میں اس بات کو بھی واضح کروں کہ ہر حملہ آور قوت کسی بھی قوم پر قبضہ کرنے کے لئے لالچوں اور مراعات سے اس خطے ہی کی لوگوں میں اپنے لوگ پیدا کر کے قبضہ کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ اسی سلسلے کی کڑیاں اگر ملائی جائیں تو ہمیشہ سے پاکستان میں پشتون اپنے سیاسی و معاشی اختیار کے لئے جدوجہد کرتے آئے ہیں۔ جس میں فخر افغان باچا خان اور خان شہید عبدالصمد خان کی پشتون ملی سیاسی تحریک بڑی اہمیت رکھتی ہیں۔ انہی سے متاثر محمد ابراہیم ارمان ایک سیاسی کارکن تھے، جن کا تعلق جنوبی پختونخوا کے لونی قبیلے کے ایک غریب گھرانے سے تھا۔

ارمان لونی نے تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ محنت مزدوری کر کے اپنے گھر والوں کی روٹی کا بندوبست بھی کیا۔ اس کے لئے انہوں نے کبھی کوئلے کی کانوں میں بطور کلرک مزدوری کی، کبھی کپڑے سینے کے لئے ٹیلرنگ ماسٹر رہے اور اپنے دوسرے بھائیوں کے ساتھ ہوٹل کے کام میں ان کا ہاتھ بھی بٹاتے رہے۔ ہمارے اکثر بچے بچپن ہی سے اس لئے محنت کرنے لگتے ہیں کہ وہ اپنے خاندان کے لئے خرچے کا بندوبست کریں۔ تو ارمان بھی پڑھنے کے ساتھ ساتھ محنت مزدوری کرتے تھے۔ بچپن میں مزدوری کرنے کے دوران شاید سوچتے ہوں گے کہ اتنے وسائل سے مالا مال وطن کے باوجود (جس سے دنیا جہاں کے معدنیات نکلتے ہیں) وہ معاشی مسائل کا شکار ہیں۔ پاکستان میں تیسرے درجے کے شہری کی حیثیت سے زندگی گزارنے، مزدوری کرنے اور دربدر کے ٹھوکریں کھانے پر کیوں مجبور ہیں؟ قدرت نے تو ہمیں ہر وہ نعمت دی ہے جو دنیا میں اقوام کی ترقی کا باعث بنتی ہیں۔

پختونخوا میں 9/11 کے بعد جو حالات پیش آئے وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ نہ مسجد اور نہ ہی حجرہ محفوظ رہا، دہشتگردوں کے جھتے ہمارے دھرتی کے بچوں کو ایک وبا کی طرح کھاتے رہے۔ یہ سب کچھ ایک منصوبے کے تحت آج تک جاری ہے۔ اسی سلسلے میں پختونخوا سٹوڈنٹس آرگنائزیشن جو کہ پختونخوا ملی عوامی پارٹی کی طلبہ تنظیم ہے۔ اس سے وابسطہ ارمان لونی نے سیاسی شعور اپنی پارٹی اور قومی تحریک کے ہراول دستے سے لیا اور جب وزیرستان کے نوجوان محسود تحفظ مومنٹ کی صورت میں اسلام آباد پہنچے تو ارمان لونی کی طرح ہر سیاسی پارٹی خصوصاً پشتون قوم پرست پارٹیوں کے نوجوانوں نے یہاں ان کی آواز کو تقویت دینے اور انہیں سیاسی طور پر منظم کرنے کے لئے محسود تحفظ مومنٹ کو پہلے پشتون تحفظ مومنٹ بنایا اور پھر اس کے لئے چندے، جلسے، جلوس، کمپئنز کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ پی ٹی ایم کے اسلام آباد دھرنے میں پشتون سیاسی رہبری محترم اسفندیار ولی خان، محترم محمود خان اچکزئی، محترم آفتاب احمد خان شیرپاو، اور محترم مولانا فضل الرحمان صاحب سمیت دیگر وفاقی سیاسی پارٹیوں کی رہبری اور نمائندوں نے خطاب کر کے ان کی قومی سیاسی ایشوز اٹھانے پر انہیں سراہا اور ان کی ہر طرح سپورٹ کرنے کا عہد اس لئے کیا کیونکہ اس میں تمام سیاسی پارٹیوں کے نوجوان شامل تھے۔



پشتون تحفظ مومنٹ کی واضح پالیسی جو کہ نقیب شہید کو کراچی میں قتل کرنے کے بعد فیک انکاؤنٹرز، مسنگ پرسنز، دہشتگردی، انتہا پسندی، لینڈ مائنز، پشتونوں کی پاکستانی میڈیا کے ذریعے ریشیل پروفائلنگ، پشتونوں کو ان کی سیاسی، آئینی اور بنیادی انسانی حقوق دینے کے لئے میدان میں آئے۔ جس میں تمام غیور عوام، نوجوانوں، عورتوں، بوڑھوں، بچوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے۔ سب سے پہلے ان پشتون سیاسی کارکنوں کے لئے ریاستی طور پر میڈیا بلیک آوٹ کا فارمولہ بنایا گیا تو انہوں نے سوشل میڈیا کو استعمال کرتے ہوئے اپنے اوپر ہونے والے ظلم و جبر بیان کیے۔ ریاستی طور پر یہ پالیسی کہ "پشتون طالبان ہیں اور طالبان پشتون ہیں" کی بیانیے کو مکمل طور پر عوامی سطح پر مسترد کر کے پشتونوں کے لئے احتساب مانگنے کے لئے ہر چھوٹے بڑے شہر میں مظاہرے کیے اور کر رہے ہیں۔

پشتون تحفظ موومنٹ پر پہلے تو پابندیاں لگائی گئی، ان میں ایکٹیو سیاسی سوچ کے شعوری کیڈرز کو دبانے اور ان کی آواز روکنے کے لئے ریاست نے اوچھے ہتھکنڈوں سے کام لینا شروع کیا۔ جب بات نہ بنی تو ارمان لونی جو کہ شعبہ پشتو میں کالج لیول کے استاد تھے کو 2 فروری 2018 کو جب وہ لورالائی میں دہشتگردی کے حملے میں لوگوں اور پولیس اہلکاروں کی قتل عام کے خلاف احتجاج کے بعد دھرنا دیے ہوئے تھے۔ ریاست کو یہ کہیں سے ہضم نہیں ہو پا رہا تھا تو انہوں نے اس مظاہرے کے بعد ارمان لونی پر حملہ کیا۔ اس حملے میں پُرامن ارمان لونی کو ہم سے جدا کیا گیا۔

ارمان لونی جیسے نوجوان کی موجودگی پی ٹی ایم میں ریاست کو قابل قبول اس لئے نہیں تھی کہ وہ باشعور، تعلیم یافتہ استاد تھے۔ ریاست کو اندازہ ہے کہ اگر قوم کے استاد علم کے ساتھ ساتھ سیاسی شعور بھی رکھتے ہوں تو وہ ان کے لئے خطرناک بھی ہوسکتا ہے۔ وہ اپنے شاگردوں کو صرف ڈگریاں لینے کے لئے تربیت نہیں کرتا بلکہ انہیں شعوری طور پر تیار کر کے معاشرے میں تخلیق اور تنقید کی فضا بھی قائم کرتے ہیں۔ کسی بھی تحریک میں جب اس قسم کے تعلیم یافتہ اور شعوری سیاسی نوجوانوں کی موجودگی ہو ان پر ریاست کی پروپیگنڈے اور دھونس دھمکیوں کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ بلکہ وہ تاریخ رقم کرتے ہیں جیسے کہ ارمان لونی نے کی۔ اس کے علاوہ جو ریاست کو ہضم نہ ہونے والی بات تھی وہ یہ تھی کہ نہ صرف خود جدوجہد میں عمل پیرا تھے بلکہ اپنی بہن وڑانگہ لونی کو بھی قومی تحریک کاحصہ بنایا ہوا تھا۔



اس کے ذریعے وہ عوام کو قومی تحریک میں عورتوں کی موجودگی یقینی بنانے کا درس دیتے رہے۔ یہی ساری وجوہات تھیں جو ان کی شہادت کی وجہ بنی۔ مگر، پشتون تحفظ موومنٹ کی آواز آج اور بھی توانا ہو گئی ہے۔ ان کے شہادت کے بعد ان کی بہن نے اپنی جد وجہد کو جاری رکھا ہوا ہے اور یہی بات پی ٹی ایم کے بہت سارے نوجوانوں کو حوصلہ دیتی ہے کہ چاہے جو بھی ہو جائے اپنی جدوجہد کو جاری رکھنا ہے۔

اب پشتون تحفظ موومنٹ کو قوم پرست سیاسی پارٹیوں اور پاکستان کی سیاسی جمہوری قوتوں کی حمایت حاصل ہے۔ ارمان امن قائم کرنے، پشتونوں کی سیاسی برابری، پاکستان کو ایک شفاف جمہوری فیڈریشن بنانے کی جدوجہد میں اپنی شہادت کے ذریعے ایک مثال قائم کر چکے ہیں۔ ان کی جدوجہد پاکستان کو پشتون، بلوچ، سندھی، سرائیکی اور پنجابی اقوام کی منتخب پارلیمنٹ کے ذریعے پرامن داخلہ و خارجہ پالیسی بنانے اور دہشتگردی و انتہا پسندی پر مبنی پالیسیوں کو ترک کرنے کے لئے جاری و ساری ہے۔