کرونا کی تیسری لہر اور ہماری غیر سنجیدگی کا عالم

کرونا کی تیسری لہر اور ہماری غیر سنجیدگی کا عالم
اس دنیا کی اکثریت کو کرونا کا سامنا کرتےہوئے تقریباً ایک برس سے زیادہ کا عرصہ ہو چکا ہے اور اس کی تباہ کاریاں ابھی بھی زوروشور سے جاری ہیں۔دنیا کے کئی ممالک بشمول پاکستان اس وقت کرونا کی تیسری لہر سے نبردآزما ہیں جو کہ پہلے سے زیادہ خطرناک بتائی جا رہی ہے۔

دنیا کے لیۓ مثبت خبر یہ ہے کہ ویکسین کی ترسیل کا کام دنیا کے زیادہ تر متاثرہ ممالک میں جاری ہے۔اس میں سرفہرست ممالک میں اسرائیل،متحدہ امارات،برطانیہ اور امریکہ وغیرہ کے نام شامل ہیں۔

اگر اب پاکستان کا جائزہ لیں تو ویکسین کی فراہمی کا کام یہاں بھی شروع ہو چکا ہے مگر اس کی فراہمی کی رفتار اور لوگوں کی سنجیدگی اس معاملہ میں ابھی کم ہے۔

پاکستان بھی کرونا کی تیسری لہر سے بری طرح متاثر ہو رہا ہے اور ملک کے نامی گرامی افراد اس سے متاثر ہو رہے ہیں جیسے کہ وزیراعظم پاکستان،صدر پاکستان اور وزیر دفاع وغیرہ۔اس وقت پاکستان میں مجموعی طور پر کرونا کے پھیلنے کی شرح دس فیصد سے زائد ہے۔

ملک میں کیسز کی تعداد ہر آنے والے دن کے ساتھ بڑھتی جا رہی ہے۔اور ان کیسز میں بڑے اور چھوٹے شہر سب شامل ہیں مگر سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ ہماری کثیر تعداد ابھی بھی اس وبائی بیماری کو سنجیدہ لینے کو تیار نہیں۔

میرے ایک دوست جو کہ نارووال شہر کے رہائشی ہیں وہ بتا رہے تھے کہ نارووال میں بھی اس وائرس سے عوام کی تعداد کا بڑا حصہ متاثر ہے مگر وہاں پر نہ تو مناسب کرونا ٹیسٹ کرنے کی سہولت موجود ہے اور نہ ہی متاثرہ لوگوں کی بڑی تعداد یہ ٹیسٹ کرانا چاہتی ہے اور ٹیسٹ نہ ہونے کی وجہ سے اگر کوئی فوت ہو جاتا ہے تو اس کی موت کی وجہ کبھی بخار کو قرار دیا جاتا ہے اور کبھی دل کے دورہ کو موت کی وجہ قرار دیا جاتا ہے۔اب ایسی فوتگی کی صورت میں جنازے میں جو لوگ شریک ہوتے ہیں ان میں سے بھی اکثریت سماجی فاصلے اور ماسک کا خیال رکھے بغیر شامل ہوتی ہے جہاں سے وائرس اور زیادہ پھیل جاتا ہے۔

یہ کہانی اس وقت پاکستان کے ہر متاثرہ شہر میں موجود ہے۔ایک جاننے والے برطانیہ سے پاکستان تشریف لائے تو انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں تو لوگوں کی اکثریت کرونا کو سنجیدہ نہیں لے رہی اور کچھ لوگ تو کرونا کا نام بگاڑ کر اسے رونا کہہ کر پکار رہے ہیں۔اس کا مطلب تو یہی محسوس ہوا کہ ہم شاید ابھی تک یا تو اس بیماری کو مذاق سمجھ رہے ہیں یا پھر ہم خود کو اس حد تک نیک اور برگزیدہ قوم خیال کر رہے ہیں کہ جو پوری دنیا میں تباہی کے باوجود مکمل طور پر محفوظ رہے گی۔

اس غیر سنجیدگی کے بعد ہماری اگلی غیر سنجیدگی یہ ہے کہ ہم میں سے کچھ ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو کرونا ویکسین کو کسی بلا سے تشبیہ دے رہے ہیں اور وہ بالکل بھی ویکسین نہیں لگوانا چاہتے۔اب میرا ان سے یہ سوال ہے کہ اس ویکسین سے وہ خوفزدہ کیوں ہیں؟

ان کو اتنا علم ہونا چاہیۓ کہ جیسے دوسری بیماریوں مثلاً چیچک،پولیو وغیرہ سے بچاؤ کے حفاظتی ٹیکے لگتے ہیں ویسے ہی یہ کرونا وائرس سے بچاؤ کا حفاظتی ٹیکا ہے۔

کرونا کی تیسری لہر پاکستان میں پہلی دونوں لہروں سے خطرناک بتائی جا رہی ہے مگر اس سے اسی وقت بچاؤ ممکن ہے جب انفرادی طور پر ہر فرد اپنی ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے سنجیدگی دکھائے گا۔اب رمضان شروع ہونے والا ہے تو مساجد میں عبادت کے وقت بھی مذہبی رہنماؤں کو سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔جس کو جب ویکسین ملے اس کو لگوا لینی چاہیۓ اور ماسک اور فاصلہ پر عمل درآمد برقرار رکھنا چاہیۓ۔

اگر کسی کو پھر بھی کرونا ڈرامہ لگتا ہے تو ان افراد سے مل لیں جو اس کا شکار ہوئے ہیں یا پھر ان سے مل لیں جن کے قریبی اس کا شکار ہو کر دنیا سے کوچ کر گۓ۔

اللہ پاک سب کی حالت پر رحم فرمائے۔

احتشام اعجاز بھلی ان دنوں امریکہ میں مقیم ہیں اور U.S. Press Association کے ممبر ہیں۔ وہ پیشے کے لحاظ سے وکیل ہیں اور لاہور ہائی کورٹ کے تاحیات رکن ہیں۔