سوشل میڈیا اور واٹس ایپ گروپس میں ایک پوسٹ گردش کر رہی ہے جس کے مطابق عمران خان کا 178 اعتماد کے ووٹ لینا ناممکن تھا۔ پوسٹ میں تحریکِ انصاف کے اپنے اراکین کی تعداد، فیصل واؤڈا کے استعفے اور دیگر معاملات کو سامنے لاتے ہوئے یہ کہا گیا ہے کہ عمران خان کا 178 ووٹ لینا ناممکن تھا۔
پوسٹ کے مطابق:
’’ نیازی کو ووٹ ملے 178
حکومت و اتحادیوں کی کل تعداد 180
فیصل واڈا مستعفی، باقی بچے 179
ڈسکہ کا الیکشن کالعدم باقی رہ گئے 178
ایک آزاد امیدوار نہیں آیا باقی 177
سپیکر قومی اسمبلی اپنا ووٹ کاسٹ نہیں کر سکتا باقی 176
بی این پی کے چار اراکین غیر حاضر، بقایا بچے 172
پھر 178 ووٹ کیسے پڑ گئے ؟
اور کچھ گدھے آج بھی یہ کہتے پھر رہے ہیں کہ “ادارے نیوٹرل” ہو چکے ہیں۔
تاریخ کے ایک کالم میں کہیں پڑھا تھا کہ ریفرنڈم کی شام ضیاءالحق نے کنٹرول روم جا کر کہا تھا کہ اتنے ووٹ بھی نا ڈلوا دینا جتنی آبادی ہی نا ہو۔‘‘
اس افواہ کو اپوزیشن رکن محسن داؤڑ کے اس بیان سے بھی تقویت ملی کہ اعتماد کے ووٹ کے موقع پر ایوان میں اتنے لوگ ہی موجود نہیں تھے۔
تاہم، اس حوالے سے نیا دور نے ایوان میں تمام جماعتوں کی عددی حیثیت کو جانچا تو نظر آیا کہ تحریکِ انصاف کے پاس ایوان میں 157 اراکین ہیں جب کہ اس کے اتحادی متحدہ قومی موومنٹ (7)، مسلم لیگ ق (5)، بلوچستان عوامی پارٹی (5)، گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (3) اور عوامی مسلم لیگ (1) ایوان میں 178 اراکین رکھتے ہیں۔ جب کہ جمہوری وطن پارٹی کا ایک اور 2 آزاد اراکین کی حمایت بھی انہیں حاصل ہے۔ لہٰذا ایوان میں کل 181 اراکین کی حمایت انہیں حاصل ہے۔
ان میں سے فیصل واؤڈا کو نکال دیا جائے جو کہ اب مستعفی ہو چکے ہیں، تو بھی ایوان میں 180 اراکین کی عمران خان کو حمایت حاصل ہے۔ اس کا یہ قطعاً مطلب نہیں کہ محسن داؤڑ غلط کہہ رہے ہیں۔ مقصد صرف یہ دیکھنا ہے کہ آیا اس پوسٹ کی ریاضی درست ہے؟ بادی النظر میں یہ ریاضی درست نہیں۔ عمران خان 180 میں سے 178 اعتماد کے ووٹ بالکل لے سکتے تھے۔