پیپلز پارٹی کو پی ڈی ایم سے نکالنے کا سخت فیصلہ کرنا ہوگا

پیپلز پارٹی کو پی ڈی ایم سے نکالنے کا سخت فیصلہ کرنا ہوگا
شومئی قسمت سے نوے کی دہائی میں اداکار گووندا بھارتی فلم انڈسٹری کے سپر سٹار بن کر چھا گئے۔ ایک کامیڈی فلم میں تو انڈسٹری کی اسٹیبلشمنٹ یعنی امیتابھ بچن کو بھی پیچھے چھوڑتے نظر آئے۔ وہ اداکار تو اوسط درجے کے تھے لیکن ہیروازم ان کے اندر رچ بس گیا۔ زمانہ بدل گیا، فلموں کے موضوع بدل گئے، ان کی عمر اور جسامت ڈھل گئی لیکن وہ ہیرو بننے کی ضد پر اڑے رہے۔ 2017 میں ہیرو نمبر ون کے نام سے فلم بنائی جو بری طرح فلاپ ہوئی لیکن وہ اس فلم کے ناکام ہونے کی ذمہ داری بھی مختلف لوگوں پر ڈالتے ہیں اور اپنے کامیاب ہیرو ہونے پر آج تک مصر ہیں۔

کچھ ایسا ہی معاملہ محترم زرداری صاحب کا بھی ہے۔ وہ کسی سیاسی فلم کے ہیرو تو کبھی نہیں رہے لیکن ایک اچھے سپورٹنگ ایکٹر کا کردار ضرور نبھاتے رہے۔ نوے کی دہائی ان کے عروج کا زمانہ تھا کیونکہ روایتی جوڑ توڑ اور سازشوں کا زمانہ تھا۔ نوابزادہ نصراللہ کو صدارتی الیکشن میں فاروق لغاری کے حق میں دستبردار کرانا اس وقت ان کا ایک کارنامہ سمجھا گیا۔ محترمہ بےنظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پیپلز پارٹی جیسی عوامی جماعت کا اختیار ان کے پاس آ گیا۔ بھٹوز والا مزاج ان سے بہت آگے کی چیز تھا اس لئے انہوں نے مسلم لیگ جیسی سیاست کی راہ اپنائی۔

یہ وہ وقت تھا جب تمام سیاسی پارٹیاں ایک طرف اور اسٹیبلشمنٹ دوسری طرف تنہا کھڑی تھی۔ آصف زرداری نے سیاسی مصالحت کا نعرہ لگایا۔ قریب تھا کہ پارلیمان اور وزیر اعظم کے دفتر کی عزت بحال ہوتی لیکن انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ سمجھوتے شروع کر دیے۔ بس ایک بات ذہن میں بٹھا لی کہ حکومت کو پانچ سال پورے کرنے چاہئیں۔ ن لیگ افتخار چودھری کو بحال نہ کرنے پرحکومت چھوڑ گئی۔ پھر سیاسی دباؤ میں افتخار چودھری کو بحال بھی کیا اور سیاسی اکٹھ بھی ختم ہو گیا۔ سوئس اکاؤنٹ کیس اور میمو گیٹ نے سیاسی ساکھ ختم کر کے رکھ دی اور ایک وزیر اعظم تک قربان کرنا پڑا۔

دوسری طرف آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کو اضافی مدت دے کر خوشنودی حاصل کرنے کوشش کی تاکہ سیاسی تنہائی کا متبادل مل سکے لیکن اس سب کے باوجود پی ٹی آئی کی تعمیر و ترقی نہ رکوا سکے اور وقتی مفادات کے علاوہ کچھ حاصل نہ ہوا۔ یقیناً اس معاملے میں انہیں عمران خان سے سیکھنا چاہیے۔ ایک طرف تو ایک زرداری سب پہ بھاری کا نعرہ لگایا لیکن دوسری طرف موصوف کو صدر پاکستان ہوتے ہوئے ایمبولینس کے ذریعے ائرپورٹ پہنچ کر دبئی پناہ حاصل کرنا پڑی۔ پانچ سال کی مدت پوری کرنے کی خواہش یار لوگوں نے ایسی پوری کروائی کہ لوئر مڈل کلاس کی پارٹی سرمایہ داروں کے ہاتھوں یرغمال بن گئی اور سمٹ کر ایک علاقائی پارٹی میں تبدیل ہو گئی حالانکہ اٹھارھویں ترمیم کے بعد تو پیپلز پارٹی کو زیادہ مقبول ہونا چاہیے تھا۔

آصف زرداری نے اپنی طبیعت کے مطابق عوامی پارٹی کی ہئیت بدل کر اسے سٹیٹس کو کی پارٹی بنا کر رکھ دیا۔ نتیجہ پھر بھی ڈھاک کے تین پات یعنی پارٹی سندھ تک محدود ہو گئی۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ نواز شریف کے دماغ میں بھی یہ بات راسخ ہو گئی کہ حکومت کو مدت پوری کرنی چاہیے، چاہے وزیر اعظم کی عزت کا جنازہ نکل جائے۔ چنانچہ وہی ہوا۔ نواز شریف حکومت نے تمام مدت سو جوتے اور سو پیاز کھا کر گزاری۔ 2014 کا دھرنا بھگتا لیکن ذمہ داروں کو سزا دینے کا حوصلہ نہ ہوا بلکہ عالم یہ تھا کہ نواز شریف کو استعفے کا پیغام بھجوانے کا انکشاف کرنے پر نواز شریف کو مشاہداللہ مرحوم سے استعفا لینے پر مجبور کر دیا گیا لیکن برگیڈیئر ریٹائرڈ سیمسن یا ان کے مالک مجبور نہ ہو سکے۔

حسب معمول جنرل راحیل شریف کی مدت ملازمت میں اضافے کا مسئلہ کھڑا ہو گیا۔ جانے کی باتیں جانے دو سے لے کر ڈان لیکس تک ہر معاملہ میں وزیراعظم آفس کو اس طرح نکو بنایا گیا کہ الامان والحفیظ۔ پانامہ سکینڈل نے تو رہی سہی کسر بھی پوری کر دی۔ سپریم کورٹ، واٹس ایپ جے آئی ٹی، حسین نواز کی تصویر اور پتہ نہیں کیا کیا ذلت بس پیش نظر شاید زرداری کا نظریہ ہی تھا کہ سیاسی حکومت اگر مدت پوری کر لے تو ستے ای خیراں۔ خیر، شاہد خاقان وزیر اعظم بن گئے لیکن پارلیمنٹ اور وزیر اعظم آفس سے بلائیں نہ ٹل سکیں۔

آصف زرداری اب کی بار کھلم کھلا اسٹیبلشمنٹ کے کیمپ میں موجود تھے۔ بلوچستان حکومت گرانے اور سینیٹ میں ن لیگ کا راستہ روکنے کے لئے وہ ہراول دستہ بن کر سامنے آئے۔ رضا ربانی کو چیئرمین سینیٹ بنانے کی پیشکش تک ٹھکرا دی لیکن عمران خان سے اعصاب کی جنگ بری طرح ہار گئے۔ طاقت اور اکثریت کے باوجود اپنا بندہ لانے کی بجائے صادق سنجرانی کو چیئرمین سینیٹ بنانے پر اکتفا کر لیا۔ ہاں کسی تسلی پر یہ پیغام دیتے پائے گئے کہ اگلے ہائبرڈ نظام میں پیپلز پارٹی کے بغیر حکومت نہیں بن سکے گی۔

ایسی ہی کسی تسلی کی بنیاد پر آصف زرداری 2018 الیکشن کی ہر طرح کی انجینئرنگ میں یہ بھول کر شامل رہے کہ اٹھارھویں ترمیم معاف نہیں ہوگی۔ انہیں اپنے مقاصد کی تکمیل کے لئے سندھ حکومت کے ساتھ پنجاب سے آٹھ، دس سیٹوں کی ضرورت تھی لیکن یہاں پھر دھوکہ کھایا اور عمران خان نے تو باقاعدہ شہہ مات دی۔ پیپلزپارٹی کی مدد کے بغیر حکومت بنانے کی ضد منوائی۔ لیکن زرداری صاحب نے امید کا دامن نہیں چھوڑا۔ پیپلز پارٹی نے عمران خان کو سلیکٹڈ اور اسٹیبلشمنٹ کو سلیکٹرز کا نیا نام دیا اور اس نظام کو جعلی قرار دیا لیکن ساتھ ہی اپوزیشن جماعتوں کے قومی اسمبلی کا حلف نہ لینے کے فیصلے کی بھرپور مخالفت کر کے اسے ناکام بنایا حالانکہ اس اقدام کی صورت میں پورے ہائبرڈ نظام کا اپنے خالق حقیقی کے پاس پہنچنا یقینی تھا۔ لیکن یہ نے نوائی کسی کام نہ آئی۔

عمران خان نے زرداری بننے سے صاف انکار کر دیا اور کرپشن کے خلاف اپنے بیانیے کے لئے آصف زرداری اور ان کی ہمشیرہ کی بھینٹ دینے کی ضد کو منوا کے دکھایا۔ وہ تو بھلا ہو ریاست کے چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کا جس نے آصف زرداری کو تعاون کے بدلے مقدمات میں ضمانت سے نوازا۔ لیکن پیپلز پارٹی کی اساس پر سمجھوتوں کے باوجود وہ ضمانتوں جیسی رعایتوں سے آگے نہ بڑھ سکے بلکہ یار لوگ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ ان سے بہتر سودے بازی تو عزیر بلوچ کر سکتا ہے۔

آصف زرداری نے بہت مایوس ہو کر پی ڈی ایم کی داغ بیل تو ڈال دی لیکن اس سے پیداشدہ دباؤ کو بھی بہت چھوٹی سودے بازیوں کے لئے ہی استعمال کیا۔ پہلے تو خود بلاول بھٹو سمیت ان کی پارٹی رہنماؤں نے استعفے دینے کا شور ڈالا اور جب دباؤ بن گیا تو خود ہی غبارے سے ہوا نکالنی شروع کر دی۔ ہر سیاسی ذہن رکھنے والے کو علم ہے کہ صرف قومی اسمبلی سے استعفے ہی ہائبرڈ نظام گرانے کے لئے کافی ہو جاتے اور سندھ اسمبلی سے استعفوں کو موقوف کیا جا سکتا تھا لیکن اپنے مقاصد کے حصول کے لئے استعفوں کی تجویز کی خوب بھد اڑائی گئی کیونکہ منزل مقصود گلگت بلتستان کے الیکشن متعین کر دی گئی تھی۔ سونے پہ سہاگہ کراچی میں مریم نواز کے کمرے پر چھاپہ اور آئی جی سندھ کے اغوا کا واقعہ تھا۔ آئی جی سندھ کےاغوا پر نرم مؤقف سے پھر امید باندھ لی کہ موجودہ سیٹوں سے شاید دو سیٹیں ہی زائد مل جائیں لیکن حسب معمول پھر دھوکہ کھایا۔ گلگت بلتستان کی حکومت بھی عمران خان کے قدموں میں ڈال دینا بھی کسی کی مجبوری ٹھہرا۔

سینیٹ الیکشن میں حصہ لینا بالکل صحیح فیصلہ تھا اسی لئے پی ڈی ایم اس فیصلے پر متفق بھی ہو گئی لیکن اس الیکشن اور یوسف رضا گیلانی کی بطور سینیٹر جیت سے پھر یہ تاثر دیا گیا کہ اسٹیبلشمنٹ نیوٹرل ہو گئی ہے اور ہمیشہ کی طرح چیئرمین سینیٹ کے الیکشن میں بھی سراب سے دھوکہ کھایا۔ سینیٹ الیکشن میں کیمرے پکڑے جانے کا شرمناک واقعہ کوئی معمولی واقعہ نہیں۔ اس سکینڈل سے بین الاقوامی سطح پر ملک کی جو بدنامی ہوئی اس سے جان بوجھ کر صرف نظر کیا جا رہا ہے اور اب کی بار امیدیں سپریم کورٹ سے لگا لی گئی ہیں۔

ان تمام سیاسی ہتھکنڈوں سے عوام کو یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ تمام برائیوں کی جڑ عمران خان ہے اور اگر اس کو گھر بھیج دیا جائے تو تمام مسائل حل ہو جائیں گے۔ معاف کیجئے گا حضور حقائق اس سے بالکل مختلف ہیں اور ایسا تاثر دینا دراصل ایک اور سودے بازی کی کوشش ہے وگرنہ کس کو یہ نہیں پتہ کہ عمران خان کی بھی اس نظام میں کیا اوقات ہے۔ اصل مسئلہ تو حق حاکمیت کو آئین کے تابع لانا ہے۔

پی ڈی ایم کے پاس وقت بہت کم ہے۔ اسے بہت جلد فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ آصف زرداری کا ساتھ کہاں تک دے سکتی ہے اور کیا اس کی تحریک کی قیمت چند گھٹیا قسم کی سودے بازیاں ہیں۔ آصف زرداری نہ سیاست کے ہیرو بن سکے ہیں اور نہ ہی مستقبل میں اس کا امکان ہے۔ پی ڈی ایم کو ہی شاید آصف زرداری کو یہ باور کرانا ہوگا کہ آپ تو اچھے وقت میں ہیرو نہیں بن سکے تو اب کیا کسی ہیرو کا متبادل بنیں گے۔ اگر آپ ہی کے بقول یہ نظام ناجائز ہے تو پھر اسے برقرار رکھنے کی ضد اور متبادل بننے کی کوشش ہماری طاقت کے ذریعے کیوں؟

اگر اس پیغام کے باوجود آصف زرداری قائل نہیں ہوتے تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ مقتدر لوگ نئے وعدوں کے ساتھ پیپلز پارٹی کے ذریعے پی ڈی ایم کی کشتی میں سوراخ کو بڑا کرتے رہیں گے تاکہ اصل مسئلہ یعنی حق حاکمیت کا فیصلہ نہ ہو سکے۔ ایسے مؤقف پر اصرار کی صورت میں پی ڈی ایم کو اپنے اتحاد سے پیپلز پارٹی کو نکالنے کا سخت فیصلہ کرنا ہوگا یا کم از کم ایسے فیصلے کا عندیہ دینا ہوگا۔ یقین جانیں کوئی بھونچال نہیں آئے گا کیونکہ پی ڈی ایم سے باہر آصف زرداری کو بھی اپنی ویلیو کا اندازہ ہے۔

موج ہے دریا میں بیرون دریا کچھ نہیں