عمران خان تو سمجھ جائیں گے، پشت بانوں کو کون سمجھائے

عمران خان تو سمجھ جائیں گے، پشت بانوں کو کون سمجھائے
مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کے مقابلے میں پاکستان تحریک انصاف بطور سیاسی جماعت محض ایک چوں چوں کا مربہ ہے۔ سیاسی نظریات، سیاسی نظام اور تنظیم سے پی ٹی آئی کی قیادت اور کارکن ناواقف ہیں۔ عمران خان کو وزیراعظم آصف زرداری اور نواز شریف نے بنایا، بصورت دیگر عمران خان شاید کبھی اپوزیشن لیڈر بھی نہ بن پاتے۔

عمران خان کی حکومت کی ایک سالہ کارکردگی سابقہ حکومتوں سے بھی بدتر رہی ہے۔ غریب عوام محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد عمران خان کو امید کی نظروں سے دیکھنے لگے تھے۔ دوسری جانب نواز شریف اور پیپلزپارٹی کی قیادت بداعمالیوں سے سبق سیکھنے کی بجائے ڈرٹی پولیٹکس پر اتر آئی اور سیاسی میدان کو پراگندہ کردیا گیا۔ عمران خان اور اس کے تھنک ٹینک نے موقع غنیمت سمجھتے ہوئے گالم گلوچ کی سیاست کو ہی وسیلہ اقتدار بنایا، نواز شریف چور اور آصف علی زرداری ڈاکو ہے کا نعرہ لیکر عوام کی حمایت حاصل کر لی۔ اگر نواز شریف اور زرداری سیاسی نظریات، اصول اور اخلاقیات کا دامن نہ چھوڑتے تھے تو عمران خان کو بھی ڈرٹی پالیٹکس کا موقع میسر نہ آتا اور نہ ہی عوام ایک نئے دھوکے کا شکار ہوتے۔

عمران خان کے پشت بانوں نے بھی وہی کیا جو وہ گزشتہ 72 سالوں سے کر رہے تھے۔ وہی پرانا کھیل رچایا گیا۔ کرپشن اور بدعنوانیوں کی فائلیں کھولی گئیں۔ ونر ہارسز کو ہانک کر پی ٹی آئی کی بس میں چڑھایا گیا۔

بدقستمی سے ہر بار یہی ہوتا آیا ہے کہ جب سب تجزیے، سب قیافے، سب خواہشیں، سب فارمولے ریت کی دیوار ثابت ہوتے ہیں تو پھر ہاتھ پاؤں مارے جاتے ہیں کہ اب کیا کریں۔ یہ تو بیرونی سرمایہ کاری لانے میں ناکام رہا ہے۔ اوورسیز پاکستانیوں نے تو اس کے کہنے پر ڈیم فنڈز میں پیسے جمع نہیں کرائے۔ پاکستان میں سرمایہ آنے کی بجائے شفٹ ہونا شروع ہو گیا ہے۔ کشمیر ایشو پر ہم پچھلے بنچوں پر بیٹھے ہیں۔ مظفرآباد کا جلسہ بھی پی ٹی آئی شو رہا، جو کشمیریوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف تھا۔ تمام اندازے غلط ثابت ہوئے ہیں۔ یہ تو نکما نکلا ہے۔ اب کیا کریں؟ بقراط پھر نئے دلائی لامے کی تلاش میں نکل پڑتے ہیں۔

قحط الرجال کے اس موسم میں سنا ہے کہ سابقین کو منانے کی سعی لاحاصل جاری ہے۔ جو کہ عمران خان کو لانے سے بھی بڑا بلنڈر ثابت ہو گا۔ عوام پھر اک نئے عذاب میں مبتلا ہو جائیں گے۔ عقل مندی اور ہوش مندی کا تقاضا یہی ہے کہ وسیع تر ملکی مفاد میں حکومت کی مدت پوری ہونے تک کوئی جماعت کھڑی کرنے کے بجائے اسی جماعت کی صفیں درست کی جائیں بے شک امامت کسی سمجھدار کو سونپ دی جائے۔ قیادت کے بحران میں اگر کوئی نیا ایڈونچر کیا گیا تو حالات مزید خرابی کی جانب جائیں گے۔ طبقہ اشرافیہ اور حکمران طبقے کو تو کوئی فرق نہیں پڑے گا مگر غریب عوام حکمرانوں کے کھیل میں پس جائیں گے۔

ایک غلطی کو سدھارنے کے لئے دوسری غلطی کا ارتکاب تباہی کا موجب بنے گا۔ پشت بان گھوڑا تبدیل نہیں کرتے ہیں بلکہ گھوڑے کو سدھارتے ہیں۔ راہ میں پڑے پتھر ہٹاتے ہیں۔ پشت بانوں پر فرض بھی عائد ہوتا ہے کہ وہ پشت بانی کریں۔ ہنگامی بنیادوں پر کام کریں۔ جس طرح عوام کو رٹایا گیا ہے کہ ملک و قوم کے محافظ ہیں۔ حب الوطنی ہم سے ہے تو کر کے بھی دکھائیں۔ ملک کو بحرانوں سے نکالنے کے لئے کندھے سے کندھا ملا کر مسائل حل کریں۔ پکنک کا وقت گزر چکا ہے۔ فرار حاصل کرنا کسی بھی مسئلے کا حل بالکل بھی نہیں ہے۔ لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ پشت بان اپنی سوچ کا زاویہ گھمائیں اور ملک و قوم کی ترقی اور بہتری کے لئے اپنا مثبت کردار ادا کرتے ہوئے ناکامیوں اور خرابیوں کو کامیابیوں کی طرف لے کر جائیں۔

جعفرافیائی، سیاسی، سماجی اور معاشی صورتحال ناگفتہ بہ ہے۔ ملک اس وقت حقیقی طور پر تاریخ کے نازک ترین موڑ پر پہنچ گیا ہے۔

مصنف ایک لکھاری اور صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کے کارکن بھی ہیں۔