آپ ہی اپنی اداؤں پہ ذرا غور کریں

آپ ہی اپنی اداؤں پہ ذرا غور کریں
طیع اللہ جان نے ایک ٹویٹ کیا کیا کہ عدالت عظمیٰ کو احساس ہوا کہ اسکی توہین کی گئی ہے۔  گو کہ مطیع اللہ کو عدالت طلبی کا نوٹس جاری نہیں کیا گیا تھا لیکن وہ خود عدالت میں پیش ہو گئے۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے مطیع اللہ جان کو نوٹس جاری کیا اور ایک ہفتہ بعد مقدمہ کی سماعت مقرر کر دی۔ عدالت عظمیٰ نے اٹارنی جنرل آف پاکستان اور سپریم کورٹ کے صدر کو اپنی معاونت کیلئے بھی نوٹس جاری کر دیئے ہیں۔

بیشک آئین و قانون کے تحت عدالت از خود نوٹس کا اختیار رکھتی ہے لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ جس عدالت کو ایک ٹویٹ پر اپنی توہین کا احساس ہوتا ہے اسکو ملک، قوم اور آئین و قانون کی توہین پر یہ احساس کیوں نہیں ہوتا؟ جب عدالت 'کسی' کے دباؤ میں آ کر آئین و قانون سے ماورا فیصلے صادر کرتی ہے اس وقت اسے اس بات کا احساس کیوں نہیں ہوتا؟

کیا آج تک عدالت نے مختلف آمروں کا ساتھ دینے پر ملک و قوم سے معافی مانگی؟ کیا بے گناہ ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کی سزا دینے پر انکا ضمیر جاگا؟ کیا نواز شریف کو پانامہ کے جھوٹے مقدمے میں سزا دینے پر انکو احساس ہوا کہ وہ صرف نواز شریف کیساتھ نہیں بلکہ اس ملک و قوم کے ساتھ زیادتی کر رہے ہیں جس کے نتائج آج ملک اور قوم بھگت رہے ہیں۔ کیا اسی عدالت کے بنائے گئے کمیشن نے سابق آمر پرویز مشرف کو غدار قرار نہیں دیا؟ کیا عدالت کا فرض نہیں تھا کہ کمیشن کے فیصلے کے بعد غدار قرار دیئے گئے شخص کو طلب کر کے دی گئی سزا پر عمل داآمد کر واتی؟

جج ارشد ملک کی ویڈیو لیک ہونے پر اسی عدالت نے ناگواری کا احساس کیا اور مقدمہ مزید کارروائی کیلئے لاہور ہائی کورٹ کو بھیج دیا۔ لاہور ہائی کورٹ کی دس رکنی انتظامی کمیٹی نے چیف جسٹس کی سربراہی میں جج ارشد ملک کو قصوروار قرار دیتے ہوئے نوکری سے تو برخواست کر دیا لیکن اسکا دیا ہوا فیصلہ ابھی تک برقرار ہے۔ اگر جسٹس عبدالقیوم کی آڈیو لیک ہونے پرانکو برخواست کرکے دی گئی سزا کو منسوخ کیا جا سکتا ہے تو پھر کس قانون کے تحت نواز شریف کو دی گئی سزا برقرار رکھی جا سکتی ہے؟

اس کائنات کا مالک تو روز محشر ہی اپنی مخلوق کیساتھ انصاف کریگا لیکں دنیا میں اس کام کیلئے اس نے ججز کے کاندھوں  پر بھاری ذمہ داری ڈال دی ہے۔ یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ عام انسان کی نسبت ججز کا احتساب بہت کڑا ہوگا لیکن کیا ہمارے ججز کو اس بات کا احساس ہے؟ ہمارے ججز کو تو شائد اس بات کا بھی احساس نہیں کہ عوام کا عدلیہ پر اعتماد تقریباً ختم ہو چکا ہے۔

ابھی دو ہفتہ قبل وزیر ہوابازی کے ایک بیان نے ملک و قوم کو دنیا بھر میں رسوا کر دیا کیا ایک ٹویٹ پر اپنی توہین کا احساس کرنے والی عدلیہ کو اس پر نوٹس نہیں لینا چاہیئے تھا؟ لوگ اگر آپ کے خلاف بولتے ہیں یا ٹویٹ کرتے ہیں تو اپ کو اس پر کسی کارروائی کی ضرورت نہیں کیونکہ اس سے آپ کے خلاف عوام میں پایا جانے والا غصہ کم نہیں ہوگا بلکہ مزید بڑھے گا۔ آپ اب بھی اپنی کھوئی ہوئی عزت بحال کر وا سکتے ہیں لیکن اس کیلئے اپ کو 'کسی' بھی دباوؑ سے آزاد رہ کر صرف رب کائنات کے خوف کے تحت فیصلے دینے ہونگے۔

آپ ہی اپنی اداؤں پہ ذرا غور کریں۔

مصنف ایک سیاسی ورکر ہیں۔