بلڈی سویلین اور بیمار کمانڈو

بلڈی سویلین اور بیمار کمانڈو
3 نومبر 2007 کو ایمرجنسی پلس کے نام پر ملک میں دوبارہ آئین کی حکمرانی کا بوریا بستر گول کر کے طاقت کی حکمرانی یعنی ایک طرح سے مارشل لا نافذ کر دینے والے کمانڈو جرنیل پرویزمشرف ہی کا راج تھا جب اسی سال حکومت نے ریاست کے ایک شہری کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر وطن واپس آنے کی اجازت دی تھی کیونکہ وہ 1997 میں ملک چھوڑ گیا تھا۔

بعد ازاں کینسر جیسے موذی مرض کا شکار ہو گیا اور وطن واپس آنے کی تمنا رکھتا تھا۔ بےنظیر بھٹو اسے "son of the soil" مطلب "دھرتی کا سپوت" کہا کرتی تھیں۔ یہ شخص ان کے پہلے دور حکومت میں سندھ اسمبلی کا سپیکر اور بعد میں سندھ کا وزیراعلیٰ رہ چکا تھا۔ مارچ میں وہ وطن واپس آ گیا۔ پھر چشم فلک نے ایک دن بڑا جذباتی منظر دیکھا جب سندھ ہائی کورٹ کے ایک کمرہ عدالت میں اس وقت سناٹا چھا گیا اور وہاں موجود ہر شخص کی آنکھیں نم ہو گئیں جب یہ "دھرتی کا سپوت" وہیل چیئر پر بیٹھا سندھ ہائی کورٹ میں پیش ہو گیا، جس نے شدید علالت میں جیسے تیسے خود کو عدلیہ کے سامنے سرنڈر کر دینے کی ٹھان لی تھی۔ عدالت نے اسی وقت اس کی ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست منظور کرتے ہوئے اس کے خلاف زیر سماعت کرپشن کے تمام مقدمات میں اسے گرفتاری سے تحفظ فراہم کر دیا۔ یہ کوئی اور نہ تھا، سندھ کا سابق وزیر اعلیٰ، ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلزپارٹی کا جیالا سید عبداللہ شاہ تھا۔

موجودہ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کا والد، جو ایم آر ڈی کی تکلیف دہ ترین سیاسی تحریک کے دوران جیل کاٹ چکا تھا۔ یہ ایک سویلین تھا۔ بلڈی سویلین۔

پھر 18 فروری 2014 کا دن آتا ہے، اسی ریاست کا ایک اور شہری خصوصی عدالت میں اپنے خلاف چلنے والے فوجداری مقدمے میں پہلی بار پیش ہونے آتا ہے، اطراف میں 1100 باوردی پولیس جوانوں اور دوسرے مسلح سیکورٹی اہلکاروں کی طویل حفاظتی دیوار کا راستہ 20 منٹ میں طے کر کے سخت سیکورٹی حصار میں سماعت شروع ہو جانے کے 3 گھنٹے بعد عدالت پہنچتا ہے۔ اس کی آمد پر بعض وکلا سابق ڈکٹیٹر کو دیکھ کر فرط جذبات میں اس کے خلاف نعرے لگا دیتے ہیں، اسی شام موقع پر موجود 2 نہایت شریف، معزز اور سینئر وکلا کو اٹھا لیا جاتا ہے اور ان پر ٹارچر کیا جاتا ہے۔ ان کے ساتھ وہ شرمناک سلوک کیا جاتا ہے کہ اگلی پیشی پر کورٹ روم میں pin drop silence یعنی بھرپور سناٹا دیکھنے میں آتا ہے۔ یہ کوئی اور نہیں، سابق فوجی کمانڈو، سابق آرمی چیف، جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف ہوتا ہے۔ جس نے ایک منتخب وزیراعظم کی حکومت کا تختہ الٹ کر نہ صرف گرفتار کروایا بلکہ ہتھکڑیوں پہنا کر جہاز میں بیٹھا کر ایک خصوصی فوجداری عدالت میں پیش کروایا تھا۔

آج کل سابق کمانڈو بیمار ہیں اور دوبئی کے ایک ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔ وہ چاہتے تو اپنے سابق باس کو بھی دیار غیر سے وطن واپس بلوا کر، اسی طرح وہیل چیئر پر عدالت میں حاضر کر کے آئین کی بالادستی اور قانون کی حکم رانی تسلیم کرنے کا اظہار کر سکتے تھے جس طرح بھٹو کا ایک سیاسی کمانڈو، سید عبداللہ شاہ پیش ہوا تھا۔

لیکن، کیوں؟ ایسا کیا ہی کیوں جاتا؟ یہ آخر فرشتوں کا نمائندہ ہے۔ کوئی سویلین، بلڈی سویلین نہیں۔

الٹا حاضر سروس چیف نے اس کے خلاف فیصلہ آنے کے اگلے ہی روز کمانڈوز کی ایک ڈویژن کا دورہ کر کے بیان دیا ہے کہ ہمیں اپنے کمانڈوز پر فخر ہے۔ غالباً اپنے سینئر سابق کمانڈو سے یکجہتی کے اظہار کے لئے، اور شائد کسی کو پیغام دینے کے لئے بھی۔

شائد ہم ابھی چلی جیسی مہذب سوسائٹی نہیں بنے، جہاں برسوں ملک پر دہشت کے ذریعے راج کرنے والا جابر فوجی ڈکٹیٹر جنرل آگستو پنوشے کو وہیل چیئر پر بیٹھ کر عدالت میں پیش ہوتے دیکھا گیا۔

معزول وزیراعظم نواز شریف کے خلاف جب سپریم کورٹ سے فیصلہ آتا تھا تو کور کمانڈرز کے اجلاس میں متفقہ طور پر اعلان کیا جاتا تھا کہ فوج سپریم کورٹ اور آئین کے ساتھ کھڑی ہے۔ شیخ رشید برملا اعتراف کرتے تھے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے پیچھے فوج کھڑی ہے۔

اب جب 6 سال بعد جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف سنگین غدّاری کے جرم پر فیصلہ آتا ہے تو کور کمانڈرز کا ایمرجنسی اجلاس بلایا جاتا ہے جس کے بعد آئی ایس پی آر کی طرف سے یہ اعلامیہ جاری ہوتا ہے کہ آج کے فیصلے سے ‏ فوج میں شدید کرب، غم و غصہ ہے۔ مشرف چیف آف آرمی سٹاف اور چئیرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کہ علاوہ صدر پاکستان رہے، جنگیں لڑیں اور 40 سال ملک کی خدمت کی، وہ کسی صورت غدار نہیں ہو سکتے۔ کورٹ پروسیڈنگز میں  قانونی ضابطے پورے نہیں کئے گئے۔

بالفاظ دیگر فیصلہ ریجیکٹڈ۔

جنرل (ر) پرویز مشرف کو کبھی پھانسی نہیں ہو سکتی، لیکن 17 دسمبر کے فیصلے اور اس کے جواب میں ادارے کے ردعمل سے چند باتیں روز روشن کی طرح عیاں ہوگئی ہیں کہ وہ کون سی طاقت تھی جس نے پرویز مشرف کو 40 دن تک ہسپتال میں عدالتی کارروائی سے بچائے رکھا۔ ہمیں بتایا گیا تھا کہ یہ پرویز مشرف کا ذاتی فعل تھا لیکن آج پتہ چلا کہ یہ اس کا ذاتی جرم نہیں تھا، شائد پورا ادارہ اس کے ساتھ شریک جرم تھا اور آج بھی شانہ بشانہ کھڑا ہے۔ آج ثابت ہوا کہ وہ کون سی مقدس خلائی مخلوق تھی جس نے 2014 کے دھرنوں کی سرپرستی کی اور سیاسی حکومت کو مجبور کر کے پرویز مشرف کو ملک سے بھگایا۔

آج ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف کے سابق وکیل ریٹائرڈ کیپٹن انور منصور کی حال ہی میں سپریم کورٹ میں کہی گئی وہ بات سچ ثابت ہوگئی کہ جنرل کبھی ریٹائر نہیں ہوتا۔

پرویز مشرف اس وقت ایک سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں لیکن وہ تاحیات جنرل بھی ہیں اس لئے ادارے کا دکھ درد فطری ہے۔

یاد رکھیں! ایک سویلین وزیراعظم قاتل ہو سکتا ہے، چور، ڈاکو ہو سکتا ہے، جھوٹا ہو سکتا ہے، مودی کا یار ہو سکتا ہے، اسے معزول کیا جا سکتا ہے، تختہ دار پر لٹکایا جا سکتا ہے، ٹرائل کے بغیر اسے سزا سنائی جا سکتی ہے، اسے اپیل کے حق سے محروم کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اس کے مقابلے میں جرنیلی عہدہ ایک پیغمبری پیشہ ہے، جو اس کو ایک بار اختیار کر لے وہ کبھی غلط کام نہیں کر سکتا۔ بیشک  ہم جیسے گناہگاروں کی نظروں میں وہ اپنے حلف سے روگردانی کرے، آئین کو توڑے، اپنی سرزمین غیر ملکی افواج کے حوالے کرے، آدھا ملک ہار دے، دشمن کے سامنے ہتھیار ڈالے، لیکن پھر بھی وہ غلط نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ وہ مرتے دم تک معصوم الخطا ہوتا ہے۔ لہٰذا اس کا مقابلہ بلڈی سویلینز سے نہ کیا جائے۔

آج دو قومی نظریہ سچ ثابت ہوا کہ اس خطے میں دو قومیں رہتی ہیں، ایک وہ جو ننگ دھڑنگ گھومتی ہے، ہر خطا اور جرم کی مرتکب ہوتی ہے، دوسری وہ جو مقدس وردی زیب تن کرتی ہے۔ جو ہر جرم اور خطا سے پاک ہے۔ اگر آپ کو ان میں کوئی قانون شکنی نظر آتی ہے تو یا تو آپ کی آنکھوں میں نقص ہے یا قانون میں کوئی سقم۔ مقدس وردی والے کبھی غلط نہیں ہو سکتے۔

یہاں مادر ملت فاطمہ جناح غدار ہو سکتی ہے لیکن پرویز مشرف غدار نہیں ہو سکتا۔ سویلین وزیراعظم کے خلاف آئی ایس آئی اور ایم آئی کے زیرنگرانی جے آئی ٹی کے ارکان عید کے دنوں میں بھی تحقیقات کرتے ہیں، چھ ماہ میں فیصلہ تاریخی تاخیر سے تعبیر کیا جاتا ہے، جبکہ جنرل کے خلاف 6 سال بعد بھی فیصلہ عجلت قرار پاتا ہے۔

آج عمران نیازی کی ریاست مدینہ کی حقیقت بھی عیاں ہو گئی کہ یہاں سویلین کے کیس میں قانون مقدس ہے جبکہ مقدس ہستیوں کے معاملے میں قانون میں سقم ہے۔

دین اسلام کا کوئی مبلغ ہے جو آج ہمیں اسلامی تاریخ سے قانون اور انصاف کا کوئی واقعہ سنا کر جگر کے زخموں پر مرہم پٹی رکھ سکے۔ یہود و نصاریٰ کی مثالیں دینا تو غداری کے ساتھ ساتھ کفر و بدعت کے زمرے میں آتی ہیں۔