اس طرح ملک نہیں چلا کرتے

اس طرح ملک نہیں چلا کرتے
وہ بھی کیا دن تھے جب اسکول میں تعلیم کیساتھ تربیت کا بھی اہتمام ہوتا تھا, ہم اپنے کلاس کے دوستوں کو بھی "تم" کہہ کر مخاطب نہیں کر سکتے تھے، ہدایت تھی کہ ایک دوسرے کو آپ کہہ کر مخاطب کیا جائے پھر بھی بھولے سے کوئی تم کہہ بیٹھتا تو جرمانہ دینا ہوتا تھا۔

گھر میں بھی بڑے بوڑھے بتایا کرتے تھے کہ بزرگوں، بچوں اور خواتین سے کس طرح پیش آنا ہے۔ محلے کے بزرگ بھی ہر گھر کے بچوں پر نظر رکھتے تھے اور کوئی غلط حرکت دیکھ کر ڈانٹ  ڈپٹ بھی کر دیا کرتے تھے اور والدین اس بات کا برا بھی نہیں مناتے تھے کیونکہ بچے سب کے سانجھے ہوتے تھے۔ بچے بزرگوں کو دیکھ کر بسوں میں سیٹ خالی کر دیتے تھے۔ خواتین کا خاص احترام کیا جاتا تھا اور اپنے سے چھوٹوں سے شفقت برتی جاتی تھی۔

آج کے نوجوان جب بازاروں اور مساجد میں گھستے اور نکلتے وقت بزرگوں کو دھکے مار کر آگے نکلتے ہیں تو سوائے افسوس کے کچھ نہیں کر سکتے کیونکہ عزت سب کو عزیز ہوتی ہے۔

آج طاقت کا دور ہے اور جس کے پاس جتنی طاقت ہے وہ اتنا ہی اپنی طاقت کا مظاہرہ کرتا ہے۔ بار بار کی فوجی مداخلت نے بھی ہمارے معاشرے پر گہرے اثرات چھوڑے ہیں۔ فوجی ادوار میں بنیادی انسانی حقوق سلب ہو جاتے ہیں تو عوام اپنے غصے کا اظہار مختلف طریقے سے کرتے ہیں۔ جو طاقت رکھتے ہیں وہ فوجی حکومت میں شامل ہو جاتے ہیں جو کہ ہر فوجی حکومت کی ضرورت ہوتی ہے۔ حکومت میں شامل ہونے والے کو بخوبی احساس ہوتا ہے کہ اب اس پر نہ آئین کی پابندی لازمی ہے اور نہ کوئی قانون اسکا راستہ روک سکتا ہے۔ اسی کی مرضی کا کمشنر اور تھانیدار لگتا ہے اور یوں وہ اپنے علاقہ کا بے تاج بادشاہ بن جاتا ہے اور علاقے کی عوام کو اپنی رعایا سمجھتا ہے۔ آج جو وڈیرے، چودھری اور خان بنے ہوئے ہیں ان میں اکثریت انہی لوگوں کی ہے جنہیں فوجی حکومتوں میں شمولیت کی وجہ سے شہرت ملی اور اب وہ اپنا ایک مقام (اچھا یا برا) بنا چکے ہیں۔ غریب عوام پر مظالم ڈھانے والوں کو فوجی حکمرانوں نے ہی پالا پوسا ہے۔ ہر فوجی حکومت میں شامل لوگوں پر نظر ڈالیں تو یہی لوگ یا انکے آباؤ اجداد نظر آئیں گے۔ یہ بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ ہم فوجی حکمرانوں کو دس دس بار وردی میں منتخب کرائینگے۔ انہی کی وجہ سے ان سے منسلک ہر شخص فرعون بن جاتا ہے اور عوام پر مظالم ڈھاتا ہے۔ انکے مظالم کا مقابلہ نہ کر سکنے کی وجہ سے مظلوم اپنے سے چھوٹے پر اپنا غصہ نکالتا ہے اور یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہتا ہے اور معاشرے میں نسل در نسل انتقام لینا ایک روایت بن گیا ہے۔

اپنی طاقت کی وجہ سے ہی یہ لوگ انتخابات میں بھی کامیاب ہو جاتے ہیں۔ انکے علاقے کا ہر شخص ان سے ڈرتا ہے اور نہ چاہتے ہوئے بھی اپنے اور اہل خانہ کی جان کے خوف سے انہی کو ووٹ دیتا ہے۔ فوجی ادوار ہی کی برکت ہے کہ معاشرے میں تقسیم عروج کو پہنچی۔ آج ہم سندھی، بلوچی، پختون اور پنجابی ہیں لیکن پاکستانی نہیں۔

پیپلز پارٹی کی حکومت گرائی جاتی ہے تو سندھ احساس محرومی کا شکار ہوتا ہے، مسلم لیگ (ن) کی حکومت کا تختہ الٹا جاتا ہے تو پنجاب میں غصہ پھیلتا ہے۔ خیبر پختوخواہ اور بلوچستان پچھلی کئی دہائیوں سے وفاق سے شکوہ کناں ہیں۔ گو کہ انکے مطالبات کچھ غلط بھی نہیں لیکن ان پر کوئی دھیان نہیں دیتا اور نفرت کی آگ وقت کیساتھ بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ آج اگر ہر صوبہ ریاست سے ناراض ہے تو اسکی وجہ ریاست کا حکومت کے ہر کام میں مداخلت ہے۔ ہر اچھے کام کا کریڈٹ خود لینا اور ہر غلط کام کے لئے حکومت کو مورد الزام ٹھہرا دینا اسکی بنیادی وجہ ہے۔

آج اگرعوام  ٹریفک سگنل کو خاطر میں نہیں لاتے تو اسکی بھی یہی وجہ ہے کہ ریاست پاکستان کا کوئی اعلٰی افسر اگر گزر رہا ہے تو سڑک بند کر دی جاتی ہے اورعوام انتطار کرتی ہے کہ بادشاہ سلامت گزر جائیں تو انکے لئے سڑک کھلے۔ اس عید کے موقع پر ہی مری روڈ ریاست پاکستان کے کسی اعلیٰ افسر کیلئے بند کر دی گئی جس سے مرد و خواتین کو گھنٹہ بھر زحمت اٹھانا پڑی۔

آئین اور قانون کی پابندی سب کیلئے ہونی چاہیئے۔ جب تک ہم وی آئی پی کلچر سے نہیں نکلیں گے ملک کی ترقی کے صرف دعویٰ کئے جاتے رہیں گے جن کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں ہو گا۔ جس طرح ہمارے یہاں معاملات چلائے جا رہے ہیں ایسے ملک نہیں چلائے جاتے۔

مصنف ایک سیاسی ورکر ہیں۔