اسٹیبلشمنٹ، مُنا بھائی اور سیاستدان سرکٹ

اسٹیبلشمنٹ، مُنا بھائی اور سیاستدان سرکٹ
لگے رہو مُنا بھائی فلم میں منا بھائی (سنجے دت) اور سرکٹ (ارشد وارثی) جب دلبرداشتہ ہو جاتے ہیں تو گاؤں واپس جانے کا فیصلہ کر لیتے ہیں۔ سرکٹ، منا بھائی سے پوچھتا ہے کہ گاؤں جا کر وہ لوگ کیا کریں گے؟ منا بھائی جواب دیتا ہے کہ گاؤں والوں کو اتہاس (تاریخ) پڑھائیں گے۔ سرکٹ کہتا ہے، ہمیں کیا اتہاس گھنٹہ معلوم ہے؟ منا بھائی جواب دیتا ہے کہ، تو کیا گاؤں والوں کو گھنٹہ معلوم ہے؟

کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ ہم سب گاؤں والے ہیں اور سیاست دان اور اسٹیبلشمنٹ منا بھائی اور سرکٹ ہیں۔ یہ لوگ حکمرانی کا خواب لیے آ جاتے ہیں اور ہم ان کی پڑھائی ہر پٹی کو من و عن تسلیم بھی کر لیتے ہیں۔ ہم آمریت کے آنے پر بھی لڈو بانٹتے ہیں، آمریت جانے پر بھی بھنگڑے ڈالتے ہیں۔ جمہوریت کی آمد کا بھی جشن مناتے ہیں اور اس کی رخصتی کا بھی۔ ہمیں بتایا جاتا ہے کہ ملک نازک صورتحال سے گزر رہا ہے تو ہم مان لیتے ہیں کہ جی حضور، بالکل ایسا ہی ہے۔ ہمیں کہا جائے کہ فلاں حکومت مذہب دشمن ہے تو ہمیں اس کے عقائد اور ارادوں میں کھوٹ نظر آنا شروع ہو جاتی ہے۔ ہمیں کرپشن سے پاک پاکستان کا خواب دکھایا جائے تو ہم تعبیر کی سوچوں میں کھو کر ووٹ ڈال آتے ہیں۔ ہماری سادہ لوحی کو مزید پرکھنے کے لیے آئیں تین چیزوں کا ذکر کر لیتے ہیں، جو کہ تواتر سے ہوتی چلی آرہی ہیں اور ہم مستقل مزاجی یا ڈھٹائی کے ساتھ ان کو برداشت بھی کرتے چلے آرہے ہیں۔

سیاست میں مذہب کا استعمال

ذوالفقار علی بھٹو اگرچہ ایک مغربی ذہن کے روشن خیال آدمی تھے لیکن انہی کے دور اقتدار میں احمدیوں کو آئینی طور پر غیر مسلم قرار دیا گیا۔ یہ عمل سیاسی تھا، مذہبی تھا یا مذہبی حلقوں کی جانب سے آنے والے دباؤ کا نتیجہ۔ یہ بھٹو کے چاہنے والے اور مخالفین اپنے اپنے حساب سے طے کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ، سوشلزم کو اسلامی تڑکا بھی بھٹو صاحب نے ہی لگایا تھا۔

ضیا الحق کا پورا دور اقتدار مذہب کی بنیادوں پر چلا۔ افغانستان کی جنگ کے فضائل، روس کو کافر بنانا اور نجانے کیا کچھ اسی دور میں ہوا۔ حتیٰ کہ ان کے ریفرنڈم کا سوالنامہ یہ تھا، کیا آپ صدر پاکستان، جنرل محمد ضیا الحق کے اس عمل کی تائید کرتے ہیں جو انہوں نے پاکستان کے قوانین کو قرآن حکیم اور سنت رسول ﷺ کے مطابق اسلامی احکامات سے ہم آہنگ کرنے اور نظریہ پاکستان کے تحفظ کے لیے شروع کیا ہے۔ اور کیا آپ اس عمل کو جاری رکھنے، مزید استوار کرنے اور منظم اور پرُامن طریقے سے اقتدار عوام کے منتخب نمائندوں کو منتقل کرنے کی حمایت کرتے ہیں۔

مسلم لیگ نواز تو تھی ہی دائیں بازو کی جماعت۔ اس نے مذہب کا بے دریغ استعمال کیا۔ وہ ضیا الحق کے جانشین بن کر ابھرے۔ بینظیر کی روشن خیالی کو ان کی دین سے دوری سے تشبیہہ دی۔ بھٹو کے سوشلزم کو بھی غیر اسلامی بنا کر پیش کرتے ہوئے یہ بیانیہ پیش کیا کہ رزق تو اللہ دیتا ہے، ریاست کون ہوتی ہے۔ 1990 کے انتخابات میں نواز شریف نے بینظیر کو گستاخ رسول ﷺ قرار دیا۔

تحریک انصاف کی الیکشن مہم انتہائی زہریلی تھی، عمران خان اور سعد رفیق کے درمیان لکیر کھینچ کر عقائد کے پیمانے پر تولا گیا۔ شیخ رشید اور عامر لیاقت کو مجاہد ختم نبوت بتایا گیا۔ ن لیگ کو شاتم رسول کہا گیا اور ثابت کرنے کی کوشش بھی کی گئی۔ اقتدار بھی، جان اللہ کو دینی ہے کی تسبیح پر ہی چل رہا ہے۔









غیر جمہوری رویے

آمروں کی بات ہم  نہیں کرتے کیونکہ ان کا تو اقتدار میں آنا ہی غلط ہے۔ اس وقت کی تین بڑی جماعتوں کا ذکر کر لیتے ہیں۔

ضیاالحق کا نمائندہ بننا۔ اسٹبلشمنٹ کی 9 ستارہ میں شامل ہونا اور اس کے علاوہ جو کارنامے ن لیگ نے سر انجام دیے ان میں 17 اپریل 1993 کو اپنے ہی صدر کے خلاف، وزیراعظم نواز شریف کی تقریر شامل ہے۔ تقریر میں ایوان صدر کو سازشوں کا گڑھ قرار دیا۔ نواز شریف نے صدر اسحاق خان سے مل کر بینظیر کی حکومت گرائی تاکہ خود اقتدار میں آسکیں۔ 1990 کے الیکشن کی مہم میں نواز شریف کا کہنا تھا کہ بینظیر کو ووٹ دینا، بھارت کی بالادستی کو تسلیم کرنے کے برابر ہے۔

پیپلز پارٹی کے کارناموں میں شیخ مجیب الرحمان کی واضح اکثریت کے ساتھ جیت کے باوجود انہیں فاتح تسلیم کرنے کے بجائے رخنے ڈالنا۔ اپریل 1993 کے نواز شریف کے خطاب کے بعد صدر اسحاق خان سے بینظیر کی طویل ملاقات اور اس کے فوراً بعد 58-2 بی کے تحت اسمبلی کو توڑا جانا۔ نواز شریف کا اقتدار بالکل ویسے ہی گرانا جیسے کہ نواز شریف نے بینظیر کا تختہ الٹا تھا۔ صدر اسحاق خان کا نواز شریف کی حکومت سمیٹنے کے بعد علی الاعلان کہنا کہ بینظیر کے ساتھ کیے گئے وعدے پورے کیے جائیں گے۔

 Go BaBa Go سے Stay BaBa Stay تک کا یہ سفر خاصا دلچسپ تھا۔

تحریک انصاف کا زبان بندی کی فضا کو پروان چڑھانا۔ اعجاز شاہ جیسے کرداروں کو اقتدار کے ایوانوں میں بٹھانا (اگرچہ یہ غیر جمہوری ہر گز نہیں لیکن اعجاز شاہ ایک منفی اور برے ماضی کے حامل ہیں)، پی ٹی وی پر حملہ کرنا، جرنیلوں کی پتلونیں گیلی کرنے کی باتیں کرنا، بجلی کے بل جلانا، لوگوں کو ہنڈی اور حوالے کی ترغیب دینا، راستہ روکنے والے پولیس والوں کو اپنے ہاتھ سے پھانسی دینے کے دعوے کرنا اور پھر اپنی ہی حکومت کے خلاف ہونے والے دھرنے کو روکنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگانا۔ بغیر ثبوت کے، مخالفین پر کیسز بنوانا وغیرہ۔

کردار کشی

نواز شریف کی بد زبانی، ان کے بینظیر بھٹو کے لیے کہے گئے الفاظ میں واضح تھی جنہیں وہ پیلی ٹیکسی بھی کہتے تھے اور انگریزوں کے کتے نہلانے والی بھی۔ اگرچہ وہ تائب ہو گئے تھے لیکن یہ واقعات تاریخ میں درج ہو چکے۔ اس کے بعد خواجہ آصف کی زبان ٹریکٹر ٹرالی، ٹریکٹر ٹرالی کرتے نہیں تھکتی تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو، سیاستدانوں کو اکثر مختلف ناموں سے پکارا کرتے تھے۔ جیسےعبدالقیوم کو ڈبل بیرل، میاں ممتاز دولتانہ کو چوہا، ائیر مارشل ملک نور خان اعوان کو گنجا وغیرہ۔ لیکن ان ناموں کی سطح اتنی پست نہ تھی جتنی ن لیگ اور بعد میں آنے والی تحریک انصاف نے اپنائی۔ پیپلز پارٹی سے متعلق معلومات اکٹھی کرنے میں سینئر صحافی، ضیاالدین صاحب نے میری مدد کی۔

فواد چوہدری جو ایک وقت میں خود تحریک انصاف کے حامیوں کو بھونکنے والا کتا کہتے تھے، آج انہی کے وزیر بنے بیٹھے ہیں۔ عامر لیاقت لواطت کو مسنون کہتے ہیں، صحافیوں کو ڈریکولا کہتے ہیں، صحابہ کو گالیاں دے کر معافیاں مانگ لیتے ہیں۔ شیخ رشید، بلاول بھٹو کی بات کریں تو چہرے پر گندی مسکراہٹ لے آتے ہیں۔ وزیراعظم کسی کو ڈیزل تو کسی مرد کو صاحبہ کہہ کر داد سمیٹتے ہیں۔ مریم نواز اور کیپٹن صفدر، جو کہ میاں بیوی ہیں، انکو لے کر بھی مغلظات بکی جاتی ہیں۔

یہ وہی جگہیں ہیں جہاں سے ہم گزر کے آچکے ہیں۔ اور قسمت کی ستم ظریفی دیکھیں، جس سیاستدان نے جو منفی روش یا رویہ اپنایا۔ وہ جلد یا بدیر، اسی روش اور رویے کا شکار ضرور ہوا۔ مومن خان مومن نہ کہتے تھے:

الجھا ہے پانوں یار کا زلف دراز میں

لو آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا

پیپلز پارٹی ہو، مسلم لیگ ن ہو یا تحریک انصاف، عوام کو براہ راست فائدہ ان میں سے حقیقی طور پر کسی نے نہیں پہنچایا۔ یہ ہر بار کوئی نیا نعرہ، نیا بہروپ، نئی ڈگڈگی لے کر آدھمکتے ہیں اور عوام، نجات، فلاح اور تبدیلی کے نام پر مر مٹ جاتی ہے۔

ن لیگ کا آصف زرداری کو سڑکوں پر گھسیٹنا اور پھر بغل گیر ہو جانا، پیپلز پارٹی کا روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ اور پھر لاڑکانہ میں بچے کا ماں کی گود میں مر جانا، تحریک انصاف کا تبدیلی کا نعرہ اور پھر کسی بھی جماعت سے زیادہ نکما پن دیکھ کر، میں کنور نعیم، بقائمی ہوش و حواس یہ بات دل سے تسلیم کرتا ہوں کہ یہ سارے مل کر ہم کو۔۔۔

کنور نعیم ایک صحافی ہیں۔ ان سے ٹوئٹر پر Kanwar_naeem او فیس بک پر KanwarnaeemPodcasts پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔