تحریک انصاف کی وفاقی اور پنجاب حکومت کے وزیر اور مشیر آپس میں کیسے لڑ رہے ہیں؟

تحریک انصاف کی وفاقی اور پنجاب حکومت کے وزیر اور مشیر آپس میں کیسے لڑ رہے ہیں؟
وزیر اعظم عمران خان جب وزیر اعظم نہیں تھے تو روز ملک کے مسائل کا حل پیش کیا کرتے تھے۔ شاید ہی کوئی ایسا واقعہ ہو گا جس پر خان صاحب نے حکومت کو کوئی مارجن دیا ہو۔ لیکن جب عمران خان صاحب کو حکومت ملی تو یوں لگا کہ جیسے ان کو اور ان کی ٹیم کو کچھ نہیں آتا۔

ہر گزرتا دن، نااہلی کی ایک خوفناک داستان رقم کرتا چلا گیا۔ ملکی معیشت اوندھے منہ جا پڑی تو خارجہ محاذ پر پاکستان فٹ بال بنا رہا۔ حتیٰ کہ کشمیر بھی ہاتھ سے گیا جس کے بعد بھی پی ٹی آئی کی خارجہ ٹیم سے کچھ نہ بن پڑا۔ ساتھ ہی سعودی عرب کے خلاف اپنے گھر کے چینل پر جذباتی بیان بازی نے جو کسر رہ گئی تھی وہ بھی پوری کر دی کہ سعودیہ نے جو کچھ احسان میں دیا تھا وہ واپس مانگ لیا۔ ہوا بازی کے وزیر کچھ بولے تو قومی ایئرلائن کو ہی لے ڈوبے۔

بعد میں معلوم ہوا کہ موصوف کا بیان ہی غلط تھا۔ لوڈ شیڈنگ بھی پھر سےسر اٹھانے لگی ہے اور امن و امان کے بارے میں کوئی خوشنما بات موجود نہیں۔ کرپشن کے خلاف احتسابی تحریک کے نام پر سیاسی دھینگا مشتی اب واضح ہے اور اس پر مزید یہ کہ اب وفاقی وزیر پنجاب کے انصافی صوبائی وزیروں کے خلاف اس بات کی تحقیقات کا مطالبہ کر رہے ہیں کہ انہوں نے نواز شریف کی رپورٹس میں جعلسازی کی اور جواباً کہا جا رہا ہے کہ وفاقی وزیر کو کچھ نہیں پتہ۔ وفاقی وزیر کہہ رہے ہیں کہ گائنی کی ڈاکٹر کو پلیٹلٹس کا نہیں پتہ۔ الغرض چوں چوں کا ایک مربہ ہے جو ملک چلانے کی کوشش کر رہا ہے۔

کسی سے بھی پوچھیں تو جھٹ کہے گا ملک اس وقت گورننس کے بحران کا شکار اور تحریک انصاف کی حکومت اس بحران کو صرف شدید ترین کرنے میں مصروف ہے۔ اس حوالے سے ملک کے معروف صحافی سہیل وڑائچ نے بھی تصدیق کی ہے کہ وزرا ایک دوسرے سے لڑنے میں مصروف ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ انہوں نے ایک نیا انکشاف کرتے ہوئے اشارہ کیا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان خود ان وزرا کو لڑواتے ہیں اور اپنی راست گوئی اور اپنے ناگزیر وجود کے تاثر کو دوام بخشتے ہیں۔

انہوں نے اس عمرانی ادا کو مغل بادشاہوں کی عادت سے تشبیہہ دی ہے اور کہا ہے کہ ایسی لڑائی مغل اپنے ہاتھیوں کی کراتے اور اس سے لطف اندوز ہوتے تھے۔ یہ سہیل وڑائچ کا تجزیہ ہے جس سے اختلاف کیا جا سکتا ہے۔ تاہم، انہوں نے ایسی معلومات پر مبنی خبر بھی دی ہے کہ جس میں وہ لکھتے ہیں:

وفاقی کابینہ کے وزیر اور مشیر تقسیم در تقسیم کا شکار ہیں۔ جدید اور قدیم مذہب اور سائنس، آگے اور پیچھے کے درمیان لڑائی ہو تو کابینہ میں زیادہ تر وزرا فواد جہلمی اور شیریں مزاری کے خلاف اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ تاہم، باقی لڑائیوں میں یہ تقسیم اور گروپنگ اور ہی طرح سے ہوتی ہے۔

وزیر اعظم نے ہر محکمے کو دو یا تین لوگوں کے حوالے کر رکھا ہے جو آپس میں ہر وقت محاذ آرائی اور مقابلہ بازی کا شکار رہتے ہیں۔ محکمہ اطلاعات و نشریات تو شروع ہی سے دو عملی بلکہ کبھی کبھی سہ عملی کا شکار رہا ہے۔ آج کل شبلی فراز انچارج وزیر ہیں جب کہ جنرل عاصم باجوہ مشیر برائے وزیر اعظم ہیں۔ حالیہ دنوں میں اے پی این ایس کی اعلیٰ سطحی میٹنگ میں اُن دو اہم ترین لوگوں میں رابطے و اشتراک کی بجائے افتراق نظر آیا۔ اس سے پہلے اسی محکمہ میں فواد چودھری کے مقابلے میں کئی مشیر متحرک رہتے تھے اور لڑائیاں ہوتی تھیں۔ فردوس عاشق اعوان کو بھی ایسی ہی لڑائیوں نے ٹکنے نہ دیا۔

جرنیلوں اور سویلینز دونوں کے پسندیدہ اسد بن جنرل عمر کو بھی معرکہ درپیش ہے۔ اس وقت مشیر پٹرولیم ندیم بابر اور وزیر واٹر اینڈ پاور عمر بن گوہر بن جنرل ایوب کے درمیان بھی سب ٹھیک نہیں چل رہا۔ ایک دوسرے کے خلاف سازشیں عروج پر ہیں۔ دیکھیں اس لڑائی میں کون اپنا عہدہ بچا سکے گا اور کس کی چھٹی ہو جائے گی؟

سب سے سمارٹ، سب سے ذہین، سب سے لائق، سب سے زیادہ با اصول وزیر جناب شاہ محمود قریشی نہ صرف سب کے پسندیدہ ہیں بلکہ وہ خود اپنے بھی بہت ہی پسندیدہ ہیں۔ مگر بیان بازی کی گرما گرمی میں وہ خود بھی بھنور میں پھنسے ہوئے لگتے ہیں۔ سعودی عرب سے حالات معمول پر آئیں گے تو تبھی وہ بھی معمول کے کام جاری رکھ سکیں گے۔

ہاتھیوں کی ایک اور لڑائی وفاقی کابینہ اور وزیر اعظم سیکرٹریٹ کے درمیان ہے۔ وزرا کی فائلیں اور ان کے بہت سے کام پرنسپل سیکرٹری ٹو پرائم منسٹر کی سکروٹنی اور پڑتال سے گزرتے ہیں۔ اس لئے کابینہ کے طاقتور وزیروں اسد عمر اور خسرو بختیار کو چھوڑ کر اکثر وزرا شکایت کناں رہتے ہیں کہ ان کے کام اور وزارت کی سمریاں رکی ہوئی ہیں۔

وزیر داخلہ اعجاز شاہ اور وزیر دفاع پرویز خٹک ویسے ہی بہت زیادہ گڈ بکس میں نہیں ہیں۔ وزیر دفاع پرویز خٹک کی واحد تعریف جو دو سال میں پہلی مرتبہ وزیر اعظم نے کی وہ پشاور بی آر ٹی کے افتتاح کے موقع پر تھی۔ وزیر داخلہ کے بہترین انتظام و انصرام پر بھی انہیں داد کم ہی ملتی ہے۔

پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں بھی ہاتھیوں کی کئی لڑائیاں جاری ہیں۔ بزدار بمقابلہ نیب، وزیر اعلیٰ سیکرٹریٹ بمقابلہ وزرا اور وزرا بمقابلہ وزرا۔ ابھی پچھلے دنوں ایک مشیر نے ایوان وزیر اعلیٰ میں وہ شور مچایا کہ الامان و الحفیظ۔ بہت سی فائلیں وزیر اعلیٰ سیکرٹریٹ میں فیصلوں کی منتظر ہیں لیکن یہ مشکل مرحلہ طے نہیں ہو پا رہا اور یوں اقتدار کے ہاتھی آپس کی لڑائیوں میں مفاد عامہ کو نظر انداز کرتے رہتے ہیں۔

ویسے تو تحریک انصاف کے ترجمان کہیں گے کہ یہ سب فیک نیوز ہے۔ لیکن صاحب جو کچھ سہیل وڑائچ نے سکہ بند اور صحافتی اسلوب میں کہہ ڈالا ہے دراصل اس کا ادراک تو ہر پاکستانی رکھتا ہے۔ جہانگیر ترین اور اسد عمر کے کھلم کھلا وار ہوں یا پھر فواد چوہدری کا سہیل وڑائچ کے ساتھ ہی انٹرویو، سب کچھ عیاں ہے۔ لیکن اب شاید پوشیدہ ہو یا کھلے عام، لگتا ہے حکمرانوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔