تماشہ کرنے والوں کو خبر دی جا چکی ہے

تماشہ کرنے والوں کو خبر دی جا چکی ہے
قانون فطرت ہے کہ انسان کو اس کی اوقات سے بڑھ کر دولت، شہرت یا منصب مل جائے تو اس کا امتحان شروع ہو جاتا ہے کیونکہ اس سے آگے وہ جو کچھ کہتا یا کرتا ہے وہ اس کے اپنے کردار اور خاندان  کا تعارف ہوتا ہے۔ سیانے کہتے ہیں کہ انسان کوشش سے اپنی عادتیں تبدیل کر سکتا ہے فطرت نہیں۔ کیونکہ فطرت کا تعلق اس ماحول سے ہوتا ہے جو اسے بچپن میں گھر، سکول اور اچھے برے ساتھیوں سے ملتا ہے اور وہ انسان کے اندر جڑ پکڑ لیتا ہے۔

عمران خان اپنے کرکٹ کے دور سے ہی خود پسند، متکبر اور تنک مزاج مشہور رہے ہیں۔ انہیں ہر چیز کا کریڈٹ لینے کا شوق ہے، چاہے اس میں ان کا حصہ برائے نام ہی کیوں نہ ہو۔ جیسا کہ انہوں نے ورلڈکپ جیتنے کے بعد کسی بھی کھلاڑی کی تعریف میں ایک لفظ کہنا گوارہ نہ کیا۔ البتہ یہ ضرور کہا کہ اپنے کریئر کے اختتام پر ورلڈکپ جیت کر ناقابل بیان خوشی ہو رہی ہے۔ اس خود پسندی اور تنک مزاجی کی وجہ سے ان کی آج تک کسی سے نہیں بنی۔

یادش بخیر جب تحریک انصاف بنی تو اس کے بانی ممبران میں جنرل (ر) حمید گل، بانی ممبر پیپلز پارٹی معراج محمد خان، اکبر ایس بابر، مشہور اینکر نسیم زہرہ اور مشہور زمانہ سماجی کارکن عبدالستار ایدھی بھی ہوا کرتے تھے۔ لیکن، ان کی اسی تنک مزاجی اور خود پسندی کی وجہ سے جلد ہی کنارہ کش ہو گئے۔ خود پسندی کے شکار لوگ صرف انہی لوگوں کو اپنے ساتھ رکھنا پسند کرتے ہیں جو ان کی جی حضوری کریں اور ہاں میں ہاں ملاتے رہیں۔ ایسے لوگ ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی کا اظہار بھی کرتے ہیں۔



مشہور صحافی اور تجزیہ کار مظہر عباس کہتے ہیں کہ 1996 کے انتخابات کے وقت عمران خان نے مجھے لکھ کر دیا کہ وہ دو تہائی اکثریت سے جیتیں گے۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ موصوف تقریباً ہر حلقہ سے اپنی ضمانت ضبط کروا بیٹھے تھے۔ 2018 کے انتخابات کے بعد 'مہربانوں' نے موصوف کو وزیراعظم بنوا دیا لیکن فطرت نے جان نہ چھوڑی۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ مطلوبہ اکثریت نہیں اور بیساکھیوں کے سہارے حکومت چلانا کھیل نہیں، پہلے دن سے جو شعلہ بیانی شروع کی وہ آج بھی جاری و ساری ہے۔ بلکہ وقت کیساتھ اس میں مزید تندی آتی جا رہی ہے۔

سابق وزیراعظم نواز شریف کی بیماری کوئی راز نہیں۔ وہ ایک طویل عرصہ سے مختلف بیماریوں کا شکار چلے آ رہے ہیں اور اس سلسلے میں کئی آپریشن بھی کروا چکے ہیں، جن میں دو اوپن ہارٹ سرجریز بھی شامل ہیں۔ پنجاب حکومت کے میڈیکل بورڈ نے رپورٹ دی کہ نواز شریف کی طبیعت بہت خراب ہے اور علاج کے لئے انہیں باہر جانا پڑے گا کیونکہ اس بیماری کا علاج پاکستان میں نہیں۔ حکومت نے سات ارب کے انڈیمنٹی بانڈ کی شرط لگائی جو میاں صاحب کو منظور نہ تھی۔ لاہور کی عدالت عالیہ نے ایک رسمی ضمانت لے کر انہیں باہر جانے کی اجازت دیدی۔ میاں صاحب تو لندن چلے گئے لیکن سلیکٹڈ وزیراعظم کو ہیجان میں مبتلا کر گئے۔ اب موصوف عدالت عظمیٰ سے بھی ناراض ہیں اور اپنے 'مہربانوں' سے بھی۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان میں پی ٹی آئی فارن فنڈنگ کیس بھی ایک تلوار کی طرح لٹک رہا ہے۔ پچھلے پانچ سال سے حیلے بہانے کے ذریعہ اس کیس کو لٹکائے چلے جا رہے ہیں لیکن اب فرار کا راستہ نہیں سوجھ رہا۔ ریاست مدینہ کا داعی اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مثالیں دینے والا خود اپنا حساب دینے کو تیار نہیں۔

پچھلے ہفتے آئی ایس آئی چیف اور آرمی چیف کی تین ملاقاتیں بھی بہت کچھ کہہ رہی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ:

تماشہ کرنے والوں کو خبر دی جا چکی 

کہ پردہ کب گرے گا کب تماشہ ختم ہو گا

مصنف ایک سیاسی ورکر ہیں۔