معاشرے کو نارمل بنانے کے لیے انسان سازی کی ضرورت ہے

معاشرے کو نارمل بنانے کے لیے انسان سازی کی ضرورت ہے
وزیراعظم پاکستان عمران خان نے وبا کے دنوں میں ایک معاشی ریلیف پیکج کا اعلان کیا ہے۔ پٹرول 15 روپے کم کر دیا ہے، روزانہ اجرت پر کام کرنے والوں کے لیے 200 ارب روپے اور ایکسپورٹ انڈسٹری کے لیے 100 ارب روپے کے ٹیکس ری فنڈ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اگرچہ اس ریلیف پیکج کو بہت شاندار قرار نہیں دیا جا سکتا، ریاست کو اس سے بڑھ کر عوام کا خیال رکھنا چاہیے مگر اس بحران زدہ اور وبا زدہ حالات میں اس سے بہتر ریلیف پیکج نہیں دیا جا سکتا تھا۔

بدترین حالات میں اقتدار میں آنے والی تحریک انصاف کی حکومت سے زیادہ توقعات وابستہ کرنا بھی دانشمندی نہیں۔ ہماری بدقسمتی ہے ہم نے شروع دن سے وطن عزیز کو فلاحی ریاست بنانے کا نہیں سوچا۔ کبھی بھی عوام کو جائز حقوق نہیں دیے گئے۔ یہی وجہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک کے برعکس ہم شہریوں کو وبا کے دنوں میں بڑے ریلیف پیکج دینے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ ترقی یافتہ ممالک نے خود کو فلاحی ریاست کے روپ میں ڈھال لیا ہے، اسی لیے وہاں انسان سازی کی جاتی ہے، ریاست سگی ماں بن جاتی ہے۔ آزادی کے بعد پاکستان اور بھارت دونوں نے روایتی ہمسایہ ممالک کی طرح رہنے کے بجائے ایک دوسرے کو اپنا دشمن بنا لیا اور ہتھیار بنانے کی اندھی دوڑ میں شامل ہو گئے۔ آج ہمارے پاس اٹیم بم ہے، ٹینک ہیں، جنگی طیاروں کی بھرمار ہے، آبدوزیں ہیں، میزائل ہیں، اگر نہیں ہیں تو ہسپتال میں وینٹی لیٹرز نہیں ہیں۔ خدا نہ کرے وبا سنگین صورتحال اختیار کرے اور ہمیں وینٹی لیٹرز کی کمی محسوس ہو۔

ذرا سوچیں تب کیا ہو گا؟

اس وبا نے ریاست کی عریانی کو اور نمایاں کر دیا ہے، دفاعی بجٹ اربوں روپے رکھنے والے شہریوں کو بنیادی سہولیات فراہم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ یہ لمحہ فکریہ ہے۔ دوسری بدقسمتی یہ ہے کہ جہاں اربوں روپے دفاعی بجٹ میں خرچ ہوئے وہاں ہمارے سیاسی حکمرانوں نے اچھی مثالیں قائم نہیں کی۔ ایک تو بدعنوانیوں کی حکمرانی کو اپنا شیوہ بنایا دوسری طرف میٹرو بس اور اورنج لائن ٹرین منصوبوں پر اربوں روپے خرچ کیے اور انسان سازی نہیں کی۔ آج وطن عزیز کی جو حالت ہے، اس میں سیاسی اور عسکری قیادت دونوں برابر کی حصہ دار ہیں۔ سیاسی اور عسکری اشرافیہ اس لوٹ مار میں برابر کی شریک ہے۔ اس وبا نے ساری دنیا کی طرح ہمیں بھی سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔

ہم کہاں کھڑے ہیں؟

چین کی طرح ہم یک زبان ہو کر اس آفت ناگہانی کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ وزیراعظم عمران خان قومی نااتفاقی کا ذمہ دار مختلف نصاب تعلیم کو قرار دیتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں چونکہ ملک میں مختلف نصاب تعلیم رائج ہیں اس لیے شہریوں کے سوچنے کا انداز مختلف ہے اور الگ الگ مکتبہ فکر کے گروہ موجود ہیں۔ لہذا ان کو ایک قوم نہیں بنایا جاسکتا، تحریک انصاف کی حکومت یکساں نصاب تعلیم لاگو کرنے کی تگ و دو میں مصروف ہے۔ اس سال وہ نصاب تعلیم کے حوالے سے بڑا قدم اٹھا سکتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کی بات سے جزوی طور پر اتفاق کیا جا سکتا ہے کہ ایک مکتبہ فکر پیدا کرنے کے لئے یکساں نصاب تعلیم کے ساتھ ساتھ دوسرے اقدامات بھی کرنے ہوں گے۔ محروم طبقات کو ان کے بنیادی حقوق بھی دینے ہوں گے۔ معاشرے میں انسانی حقوق کا پرچار کرنے سے پہلے سماج کو انسانی مرتبے پر لانا بہت ضروری ہے۔ شدت پسندی کی ہی بات کی جائے تو صرف مذہب تک محدود نہیں ہے، اس کی اور بھی بہت سی اشکال ہیں جو ہمیں نظر آتی ہیں۔ بدقسمتی سے 70 سالوں سے ہم اس کا کوئی بھی تدارک کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے اور آج ہم سماج کو نارمل بنانے کے جتن کر رہے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو ہم نے سماج کو نارمل بنانے کے جو بنیادی نکات ہیں ان کی طرف کبھی توجہ نہیں دی۔ فنون لطیفہ کو پرموٹ کرنے کا کبھی سوچا ہی نہیں گیا۔

وزیراعظم عمران خان کے نئے پاکستان میں ادیبوں اور فنکاروں کے ساتھ کوئی اچھا سلوک نہیں ہو رہا، ریڈیو پاکستان لاہور کے فنکار اور سکرپٹ رائٹر 4 ماہ سے ادائیگی سے محروم ہیں۔ ریڈیو پاکستان وزارت اطلاعات و نشریات کے ماتحت ہے۔ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کو فوری ایکشن لینے کی درخواست ہے تاکہ فنکاروں اور ادیبوں کے واجبات فوراً ادا کیے جا سکے۔ جیسا کہ سطور بالا میں لکھا گیا ہے کہ سماج کو نارمل بنانے کے لیے ادیب اور دانشور اور فنکار نمایاں کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے وہ معاشی ترقی کریں تب ہی وہ سماج کو نارمل بنانے کا کام کر سکتے ہیں۔ اسی لیے انسان سازی کی ضرورت ہے۔

حسنین جمیل 17 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ افسانوں کی تین کتابوں؛ 'کون لوگ'، 'امرتسر 30 کلومیٹر' اور 'ہجرت' کے مصنف ہیں۔