اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس کی مثال یہ ہے کہ علی وزیر جیل میں ہے اور احسان اللہ احسان بنگلوں میں رہتا ہے۔ پروفیسر ارمان لونی قتل کیس کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ جب بھی اس کیس میں ملزمان کو گرفتار کرنے کے لیے درخواست دائر کی جاتی ہے تو ان کی ضمانت دی جاتی ہے۔ ہمیں سمجھ نہیں آتی کہ یہ کیسی عدالتیں ہیں جو شہدا کے لواحقین کو انصاف نہیں دے سکتیں۔
ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ قبائلی اضلاع اور خیبر پختونخوا میں امن قائم نہیں ہوا بلکہ دو جنگوں کے درمیان وقفہ ہوا تھا، جو اب دوبارہ شروع ہوگا اور اس کے لئے کوششیں جاری ہیں۔
پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پروفیسر ارمان لونی کی بہن وڑانگہ لونی نے کہا شہید ارمان لونی قتل کیس کو سیشن کورٹ کی سطح پر رکھا گیا ہے لیکن اس قتل کے حوالے سے نہ کوئی پارلیمانی کمیشن بنا نہ ہی جیوڈیشل انکوائری ہوئی۔
انھوں نے مزید کہا کہ شہید ارمان لونی کی شہادت کے بعض نکات سیشن کورٹ کے دائرہ اختیار میں نہیں آتے کیونکہ سیشن کورٹ اس کیس میں کسی حکومتی شخصیت یا ادارے کو غفلت کی مرتکب قرار دے دیگا یا پھر اس کیس کو حادثہ قرار دے کر اس کیس کو دبا دے گا اور پورے کیس سے یہی تاثر سامنے آ رہا ہے کہ انصاف حاصل کرنے کا تصور یہاں بہت کمزور ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ ارمان لونی کیس میں عینی گواہان کو مسلسل ہراساں کیا جارہا ہے اور ہمیں ایسا لگ رہا ہے کہ اس ملک کی عدالتوں میں یہ مقدمہ ہار چکے ہیں مگر تاریخ کی عدالتوں میں ہم یہ مقدمہ جیت چکے ہیں۔