”معاملہ شاید اب میرے اختیار سے بھی باہر نکل گیا ہے“

”معاملہ شاید اب میرے اختیار سے بھی باہر نکل گیا ہے“

پاکستان میں حزبِ اختلاف کی جماعت جمعیت علمائے اسلام (ف) کے حکومت مخالف مارچ کا قافلہ جمعرات کی رات اسلام آباد ایکسپریس وے پر گامزن ہے۔ جلسہ گاہ میں حزبِ اختلاف کی دیگر پارٹیوں کے رہنما اس قافلہ کا انتظار کر رہے ہیں۔


حکومت اور مظاہرین کے نمائندوں کے درمیان مذاکرات کے بعد جو معاہدہ طے پایا ہے اس کے مطابق آزادی مارچ کے شرکا ضلعی انتظامیہ کی جانب سے مختص کردہ مقام تک ہی محدود رہیں گے۔


سینیئر صحافی عاصمہ شیرازی سے آج نیوز کے ایک پروگرام میں بات کرتے ہوئے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ اگر حکومت رخصت نہ ہوئی تو ملک میں افراتفری ہو گی۔ انھوں نے کہا کہ ’یہ نہیں ہے کہ ہم سرینڈر ہو جائیں گے، ہم نے حتمی طور پر ان سے استعفیٰ لینا ہے اور لڑ کر لینا ہے آرام سے نہیں لینا لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ ہمیں دو تین روز انھیں اسلام آباد میں بیٹھ کر بھی مہلت دینی چاہیے۔‘


https://twitter.com/BBCSalman/status/1189934545719758848?s=20

اس سوال کے جواب میں کے دو تین کے بعد کیا ان کا مسکن ڈی چوک یا شاہراہ دستور ہو گا، مولانا کا کہنا تھا کہ: ’اس کا فیصلہ اب عوام نے کرنا ہو گا، شاید یہ اب میرے اختیار سے بھی باہر نکل گیا ہے۔‘


اس اہم انٹرویو کے بعد اینکر پرسن عاصمہ شیرازی نے نیا دورسے خصوصی گفتگو کی، انکا کہنا تھا کہ ’مولانا فضل الرحمان کے آزادی مارچ میں بڑی تعداد میں شرکاء موجود ہیں، جس کی وجہ سے حکومت پر دباؤ بڑھے گا۔ ‘


عاصمہ شیرازی سے جب پوچھا گیا کہ کیا مولانا فضل الرحمان وزیر اعظم کا استعفیٰ لینے میں کامیاب ہو جائیں گے تو ان کا کہنا تھا کہ ’صورتحال واضح نہیں ہے تاہم مولانا کافی پراعتماد ہیں، مولانا اگر استعفیٰ لینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو یہ انکی بڑی کامیابی ہوگی۔‘

عاصمہ شیرازی نے کہا ’مولانا کے غیر متزلزل یقین کی ایک وجہ اب یہ بھی بن گئی ہے کہ انکے ساتھ بڑی تعداد میں لوگ موجود ہیں جو اسلام آباد کی جانب آ رہے ہیں، یہ بات سچ ہے کہ مولانا کے مارچ میں شرکاء کی تعداد بہت زیادہ ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’میں نے اس سے قبل دو لانگ مارچز کی کوریج کی ہے تاہم گزشتہ ایک دہائی میں اتنا بڑا مجمع نہیں دیکھا، مولانا کے مارچ میں موجود افراد خاصے پرامن ہیں۔‘

مسلم لیگ ن کی مارچ میں شرکت  کے بارے میں پوچھے گئے سوال پر عاصمہ نے کہا کہ ’بظاہر یوں لگتا ہے کہ مسلم لیگ ن کی لیڈر شپ مولانا کا بھرپور ساتھ نہیں دی رہی، جلسے کے ملتوی کرنے کے اعلان کے بعد جے یو آئی کی قیادت  میں اضطراب پایا جاتا ہے، مسلم لیگ ن کے کارکنان آزادی مارچ کے ساتھ ہیں تاہم لیڈرشپ آتی تو شرکاء کی تعداد مزید بڑھ جاتی۔‘

مولانا فضل الرحمان اس وقت سیاسی افق پر چھائے ہوئے ہیں، انہوں نے اپوزیشن کو دوبارہ متحرک کر دیا ہے۔