ماضی کے ہم جولی فوج اور عدلیہ دونوں اداروں کی ساکھ داؤ پر لگ چکی

ماضی کے ہم جولی فوج اور عدلیہ دونوں اداروں کی ساکھ داؤ پر لگ چکی
کیا ہم وہیں پہنچ گئے ہیں جہاں پہنچنے کا خدشہ تھا؟ کیا ملک طوائف الملوکی کی زد میں آ ہی گیا یا ابھی شروعات ہے؟ اگر طوائف الملوکی کے لفظی معنی و تعریف پر جائیں اور ملک کے موجودہ سیاسی و معاشی حالات کو مدنظر رکھیں تو نہ چاہتے ہوئے بھی یہ کہنا پڑتا ہے کہ اگرچہ ہم بیچ منجدھار ابھی نہیں پہنچے لیکن آغاز کی تمام تر نشانیاں واضح نظر آ رہی ہیں۔ اس سے صرفِ نظر کرنا اپنے آپ کو طفل تسلی یا دھوکہ دینے کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ مستزاد اگر ہم اس کی تشخیص و تجزیہ ماضی قریب کے حالات و واقعات کی بنیاد پر کرتے ہیں تو علاج و حل تو درکنار، مزید تباہ کن گمراہی کا سامنا کرنا پڑے گا۔

75 برس پہلے ایک ایسا نظام تشکیل دیا گیا تھا جس میں آئین، قانون اور اداروں کی حیثیت حکمرانی کے ہتھیار کے سوا کچھ نہیں تھی جس کے ذریعے عوام پر ان کی منشا کے برعکس ایک مخصوص طبقے و ادارے کی حکمرانی مسلط کرنا اور اس کو دوام بخشنا مقصود تھا۔ 75 سالوں سے ہر آواز، قدم و اقدام ، نسبت و بندوبست کو اسی کسوٹی پر رکھ کر استوار کیا گیا۔ ہر آئین و قانون اور سیاست دان تب تک قابل قبول تھا جب تک وہ اس نظام کے تحفظ کا ضامن بن سکتا تھا۔ علی ہذالقیاس ہر عوامی، ریاستی و حکومتی عنصر کو اس فریم میں فٹ ہونا تھا اور آج بھی فٹ ہونا ہے، ورنہ کاٹ کر باہر پھینک دیا جاتا ہے۔

آج دونوں ادارے جس میں سے ایک زور بازو پر اس نظام کی طاقت، تسلسل اور تحفظ کو درہم برہم کرتا تھا اور دوسرا اس کو آئین اور قانون کے نام پر جائز اور حلال ہونے کی آئینی سند عطا کرتا تھا، دونوں کو عوامی سطح پر اپنی ساکھ بچانے کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ ماضی میں مارشل لاء لگتا تھا اور اس کے بعد اعلیٰ عدلیہ اس پر نظریہ ضرورت کے تحت جائز ہونے کا ٹھپہ لگانے کیساتھ ایک آمر کو آئین میں ترمیم تو کیا، بعض اوقات خوش دلی سے اس آئین کو تبدیل کرنے کا اختیار بھی عطا کرتی تھی جس پر مبینہ طور پر عدلیہ کا اپنا وجود بھی قائم تھا۔ لیکن کیا کہیں، اس نرالے بندوبست میں آئین معطل ہو جاتا تھا لیکن جج اور عدالتیں پھر بھی قائم رہتے اور پوری قوم کیلئے بندوق کے سہارے نظام حکومت مہیا کر لیا جاتا۔ لیکن ماضی میں یہ سب کچھ ایک منتخب حکومت پر شب خون مارنے کے بعد شروع ہوتا اور 'مرتا کیا نہ کرتا' کی بنیاد پر ' نظریہ ضرورت' کے لبادے میں ہر چیز کو ڈھانپ لیا جاتا اور یوں پس پردہ کردار پس پردہ ہی رہ جاتے اور نام نہاد غیر جانبداری کا بھرم قائم رہ جاتا۔

شومئی قسمت کہ اس مرتبہ یہ سب کچھ 'ایک آپ کے آنے سے پہلے اور ایک آپ کے جانے کے بعد' کے مترادف، وہی ہاتھ جس نے بعد میں سب درست ہے کی سند دینی تھی، کو ایک منتخب وزیراعظم کو نااہل کرکے راستہ صاف کرنے کیلئے استعمال کیا گیا اور لانے والے کو لانے اور ان کو مسند اقتدار پر قائم رکھنے کیلئے بھی مسلسل استعمال کیا گیا۔ اس عمل خبیثہ میں بعض ہاتھ اتنے برے طریقے سے بار بار جلے کہ جن پر لگے شناختی نشان مٹنے والے نہیں ہیں۔ جو یہ ثابت کرتا ہے کہ جمہوریت اور ایک منتخب حکومت پر اعلانیہ شب خون مارنے سے غیر اعلانیہ حملہ اور اس کو نظروں سے اوجھل رکھنا زیادہ جان جوکھوں میں ڈالنے والا کام ثابت ہوا۔ اس عمل میں ریاست کے تمام ستون لیکن اعلیٰ عدلیہ اور میڈیا بری طرح متاثر ہوئے جن کی ساکھ تقریباً زمین بوس ہو کر رہ گئی ہے۔ ظاہری مقننہ اور انتظامیہ تو وہ خود عوام کی نظروں میں ہمہ وقت بے وقعت کرنا چاہتے تھے لیکن اب افتاد یہ پڑا کہ بے دریغ غلط استعمال سے وہ ستون لرزنا شروع ہوئے جس کے ذریعے اس نظام کو قانونی تحفظ دیا جاتا اور پروپیگنڈا کے سہارے ذہن سازی کر کے عوامی قبولیت پیدا کی جاتی۔ لیکن اب حالات اس نہج پر پہنچ گئے ہیں کہ یہ دیمک زدہ ستون لرز کر آپس میں بھی ٹکرانا شروع ہو گئے ہیں۔

ماضی کے برعکس سب ہی اپنا اپنا نقاب اتار کر میدان میں کود پڑے ہیں۔ پچھلے چھ سات سالوں سے ایک مخصوص ذہنیت، وابستگی اور تعصب کے الزام کے باوجود اعلیٰ عدلیہ کے ان ججوں پر مشتمل بنچ بنا کر ان کے سامنے مخصوص افراد اور نوعیت کے مقدمات رکھے جاتے رہے ہیں جس کے فیصلے تسلسل سے ایک فریق کے خلاف ہی آتے ہیں۔

شاید اعلیٰ عدلیہ میں تاریخ میں پہلی دفعہ کھل کر یہ امر سامنے آ رہا ہے کہ آزاد سوچ رکھنے والے ججوں کو یا تو فارغ کرنے کی کوشش ہوئی یا پھر سنیارٹی کے باوجود ان کو عضو معطل بنا کر تمام اہم سیاسی اور آئینی نوعیت کے مقدمات سننے والے بنچوں سے باہر رکھا جاتا ہے۔

اس پورے عمل نے سماج اور ریاستی سطح پر بے حسی کو اتنا پروان چڑھایا حتی کہ اس کی نظیر ماضی میں بھی نہیں ملتی ہے۔

ایک وقت تھا کہ اخباری خبر، تحقیقی رپورٹ، جلسہ و جلوس، ریاستی اداروں اور انتظامی افسروں میں کم ازکم بے چینی پیدا کرتے اور بسا اوقات نہ چاہتے ہوئے بھی کچھ نہ کچھ تادیبی کارروائی اور بالا سطح پر استعفیٰ وغیرہ تک بھی نوبت آ جاتی لیکن اب تو لاحول ولاقوۃ، خوف خدا، قانون نہ سماج۔ اب تو کسی کلرک اور تھانیدار کو ان چیزوں کی پروا نہیں رہی، جج جرنیل تو بہت بڑی بات ہے۔

اب تو آڈیو ویڈیو آ جاتی ہے لیکن سماج سے لے کر قانون تک کسی کو پروا ہی نہیں ہوتی۔ اگر بندہ زیادہ طاقتور ہو تو آڈیو وڈیو میں نظر آتے گناہوں کو چھپانا کیا، جائز ثابت کرنے کیلئے دلیلیں اور تاویلیں آنا شروع ہو جاتی ہیں۔ اگر کسی عام فرد کے کسی نازیبا عمل کی آڈیو ویڈیو آ جاتی ہے تو وہ فرد نہیں رہتا لیکن اگر عمران ہوں یا جج و جرنیل تو گناہ گناہ نہیں رہتا اور جرم جرم نہیں۔

چیف جسٹس نے کسی اور کیس میں ان دو ججوں کے ریمارکس کو بنیاد بنا کر سوموٹو لیا جن میں ایک لاہور ہائی کورٹ کے اس بنچ کا حصہ تھا جس نے جنرل مشرف کے خلاف سپیشل کورٹ کا فیصلہ اٹھا کر رکھ دیا تھا اور دوسرا جج پانامہ سے لیکر پنجاب حکومت سے متعلق ہر اس مقدمے اور فیصلے کا حصہ رہا جو کسی بھی آزاد عدالت میں آج بھی منہ دکھانے کے قابل نہیں ہے۔ شاید اس لئے اس قسم کے بنچ اور مقدمے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی پہنچ سے دور رکھے جاتے ہیں۔ اب الیکشن سے متعلق بنچ پر سپریم کورٹ کے اپنے جج سے لیکر بڑے فریق پی ڈی ایم تک سے اعتراضات آ گئے ہیں۔

کب تک 23 کروڑ انسانوں کو اس فرسودہ فریم کے مطابق کانٹ چھانٹ کر بزور بندوق اور ہتھوڑا اس میں فٹ کرتے رہو گے؟

طالعمند خان فری لانس صحافی ہیں اور نیا دور کے لئے لکھتے ہیں۔