پانی میں ڈوبا کراچی اور اس پر سیاست

پانی میں ڈوبا کراچی اور اس پر سیاست
تہذیب یافتہ معاشروں میں تعمیر و ترقی یا نئے شہر آباد کرنے کے دوران کشادہ گلیوں و سڑکوں، آب نکاسی کے نظام، اور پینے کے صاف پانی جیسے معاملات کو نہایت ہی احتیاط کے ساتھ طے کیا جاتا ہے اور ان 2معاملات پر خاصی توجہ دی جاتی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے وطن عزیز میں ایسا کوئی رجحان نہیں۔ بحریہ ٹاؤن، ڈی ایچ اے یا دیگر ہاؤسنگ سوسائٹیوں کی حد تک تو ہے لیکن وہاں تک پہنچنا اکثر پاکستانیوں کا خواب ہے اور یہ خواب ادھورا ہی ثابت ہوتا ہے۔ 


معاشی، آبادی اور رقبے کے لحاظ سے ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں حال ہی میں حالیہ بارشوں نے جو تباہی و بربادی مچائی، وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ تاریخ یاد رکھے گی اور آئندہ کی نسلیں ہم پر قہقہے لگائینگے جب بھی اُن کو پتہ چلے گا کہ جب کراچی شہر ڈوب رہا تھا اور پورا روشنیوں کا شہر اندھیروں میں ڈوبا ہوا تھا اور ہمارے سیاستدان یا کہلائے جانے والے لیڈران سیاسی بیان بازی کے انبار میں ایک دوسرے کو ڈبونے میں مگن تھے۔


سندھ حکومت اگر میڈیا کے بار بار توجہ دلانے پر نالوں کی صفائی اور نکاسی آب کے نظام کو بہتر بنانے پر توجہ دیتی اور حفاظتی اقدامات کرتی تو باران رحمت شہریوں کیلٰے زحمت نہ بنتی اور نہ ہی میڈیا پر غلط فوٹیج چلانے کا الزام لگایا جاتا۔ یعنی کہ سندھ حکومت کا رویہ "اُلٹا چور کوتوال کو ڈانٹے" کے مصداق نہ ہوتا۔ جبکہ دوسری طرف وزیر سمندری امور علی زیدی صاحب کہتے ہیں کہ گزشتہ سال انکےنالہ صفائی مہم کی وجہ سے کراچی ڈوبنے سے بچ گیا تھا سوال یہ ہے کہ اسی مہم کو اس سال دوبارہ انہوں نے کیوں نہیں چلایا؟ تھوڑا سا سیاسی بیان بازی کم کرتے اور اس میں اسی مہم کی کارکردگی کو شامل کرتے تو اہلیان کراچی نہ صرف ان کے مشکور ہوتے بلکہ ان کے گرویدہ ہوجاتے۔ علی زیدی صاحب کیلئے ایسے موقع پر احمد فراز صاحب نے کیا خوب کہا ہے کہ


شکوہ ظلمتِ شب سے تو کہیں بہتر تھا

اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے


بہرحال کام نہ کرنا اور مخالفین پر کیچڑ اچھالنا وطن عزیز میں سب کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔ وزیراعظم صاحب کے معاون خصوصی شہباز گل صاحب نے تو اربن فلڈنگ کی بنیاد پر سندھ حکومت کو نشانہ بنایا ہی بلکہ وہ تو کرونا کا غم بھی ابھی تک نہیں بھولے اور اس موذی وائرس سے متعلق وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ پر شدید تنقید کی۔


اہلیان کراچی کا حالیہ بارشوں کے بعد شہر بھر پانی میں ڈوب جانے سے جو نقصان ہونا وہ ہوگیا اب آئندہ کیلئے حکومت کو چاہئیے کہ وہ شہر بھر کے بڑے صاف کروائے جبکہ بلدیاتی ادارے گلی محلوں میں نکاسی آب و سیوریج کے نظام پر خاصی توجہ مرکوز کرے تاکہ آئندہ اہلیان کراچی کے گھر تالابوں و نالوں میں تبدیل نہ ہو۔ جبکہ انتظامیہ ویسٹ مینجمنٹ سسٹم کو بہتر بنائے اور ندی نالوں میں کوڑا کرکٹ پھینکنے والوں کے خلاف سخت کارروائیاں عمل میں لائی جائیں۔


حالیہ بارشوں نے اس بات کی نشاندہی کردی ہے کہ کن کن علاقوں میں اربن فلڈنگ ہوئی اور اس کی کیا وجوہات تھی۔ تو ان تمام مسائل کو فوری حل کرے۔ مون سون کے موسم میں ندی نالوں کا بپھر جانا اور اس کے بدلے بھاری جانی و مالی نقصانات کا ہونا صرف کراچی نہیں بلکہ ملک کے ہر بڑے شہر کا مسئلہ ہے۔ جس میں ندی نالوں کے آس پاس آئے روز غیر قانونی پلاٹنگ اور ہاؤسنگ سوسائیٹیاں قائم کرنا اور ندی نالوں کی صفائی نہ کرنا جیسے عوامل شامل ہیں۔


بارشوں نے کراچی کو پانی میں ڈبو دیا جبکہ حکومتی بدانتظامی نے تو اس شہر کو اندھیروں میں بہت پہلے ہی ڈبو دیا تھا۔ زیادہ دور نہیں حال ہی کی بات ہے جب شدید گرمی میں کئی دنوں تک اہلیان کراچی کی بجلی سپلائی بند تھی اور گرمی سے وہ نڈھال ہورہے تھے لیکن دوسری طرف وہ دور بھی تھا جب نواز شریف وزیراعظم تھے تو کراچی میں گرمی پڑھنے پر مصنوعی بارش پر غور کیا جاتا تھا۔ اسی طرح اس سے بھی پہلے ایک ایسا دور بھی کراچی پر گزرا جب لوگ گھر سے نکلتے تو ان کو واپس آنے کا بالکل بھی یقین نہ ہوتا،  گھر والے ان کی راہ تکتے اور آج تک دیکھ رہے ہیں۔ یہاں تک کہ لوگ گھروں، گلی، محلوں میں بھی محفوظ نہ تھے۔ 


حکومت کو ندی نالوں میں تجاوزات کرنے والے قبضہ مافیا کا قلع قمع کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ حکومت، اپوزیشن اور عوام کو طے کرنا ہے کہ کراچی شہر جس پر اگر توجہ دی جائے تو یہ پورے پاکستان کو نہ صرف اپنی آغوش میں روزگار فراہم کرسکتا ہے بلکہ ملک کی لنگڑاتی ہوئی معیشت کو بھی اپنے پاؤں پر کھڑا کرسکتا ہے۔


کراچی کی بدقسمتی یہ رہی ہے کہ موہن جودھڑو  جس کا اسٹرکچر و انتظامات سب سے تہذیب یافتہ بتائے جاتے ہیں اس شہر کو آباد کرتے ہوئے کسی نے بھی اس سیکھنے یا نقل کرنے کی زحمت تک نہ کی۔ اگر موہن جوداڑو کے طرز پر اس شہر کو آباد کیا جاتا تو آج یہ گندے و غلیظ پانی میں نہ ڈوبتا۔