’لوہڑی ہےجی لوہڑی ہے، سجناں دی لوہڑی ہے‘

’لوہڑی ہےجی لوہڑی ہے، سجناں دی لوہڑی ہے‘
ایک رات پہلے شور مچا ہوا تھا ’ لوہڑی ہےجی، لوہڑی ہے سجنا دی لوہڑی ہے‘ مجھے نہیں معلوم پڑتا کہ میں نے جب سے ہوش سنبھالا ہے اس تہوار کو پہلے کبھی منایا ہو۔ جیوے سانجھا پنجاب کی سہیلی ’پروا مسعود‘ کی پرزور دعوت پر اس سال یہ ’ لوہڑی ‘ میں شامل ہونا لازم و ملزوم ہو گیا تھا۔

’کی پراندے تے کی چوڑیاں‘ رات پہلے ہی میری سہیلیوں کی محفل لگ گئی تھی اور تیاریاں عروج پر تھیں ۔ کہیں پر مہندیوں سے ہاتھ سجائے جارہے تھے ۔ طارق جٹالہ صاحب کے ہاں پہلی رات کی لوہڑی  تو خوب سج دھج کے شرکت کی۔ ۔ طارق جٹالہ صاحب پنجابی پڑھاؤ تحریک کے روح رواں ہیں اور پنجابی ثقافت اور کلچر کو محفوظ کرنے میں ان کی کوششوں کا کوئی ثانی نہیں۔

بہر حال اگلے  ہی دن پنج وہڑہ کی بھی  دعوت تھی جس کو خصوصی طور پر لوہڑی کے تھیم پر ایک پروگرام سجایا گیا تھا۔ اس تہوار میں ملا کا  خوف کھائے بغیر لڑکیوں نے پراندے گھما کر خوب  ٹھمکے لگائے اور بھنگڑے ڈالے کہ ڈھول کی تھاپ بھی رک کر ان کو  روک نہ پائی۔  پھر تیسرے روز میرے شہر قصور میں بھی اس کا اہتمام کیا گیا۔  لوگ گھروں سے نکل کر بچے بوڑھے چھتوں پر چڑھ کر لوہڑی کا ناٹک دیکھتے رہے اور سنگیت سنتے رہے۔

جس میں  لاہور سے بھی مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے دوستوں اور نامور شخصیات نے شرکت کی اور گرمجوشی سے اپنے جذبات کا اظہار کیا۔   لوہڑی کے ان تین کے مختلف پروگراموں میں ، میں نے خود کو سب سے زیادہ جڑا ہوا محسوس کیا اور مجھے سب میں کہیں نہ کہیں اپنا عکس عیاں ہو رہا تھا جس سے میرے نزدیک ایسے تہواروں کی افادیت اہمیت اور ضرورت اور بھی بڑھ گئی ہے۔

جہاں آج کا سرمایہ دارانہ نظام سب کو تیزی سے توڑ رہا ہے ایسے میں ایسے تہوار لوگوں کو مفت میں جوڑتے ہیں اور ’اکٹھ‘ کا اظہار کرتے ہیں ۔ اور کہیں گہرائی میں میرے اندر یہ سوال بھی جنم لے رہا تھا کہ اتنا میٹھا تہوار ہمارے مغربی پنجاب سے غائب کیسے ہو گیا۔

لیکن جلد ہی ایک فیس بک پوسٹ پر مجھے اس کا جواب بھی مل گیا کہ لوہڑی ایک ہندو تہوار ہے۔ میں نے سوچا کہ لکھنے والے سے یہ پوچھوں کہ مٹی کے تہوار کب سے ہندو مسلمان ہونے لگ گئے ہیں۔ تو کیا آگ ہندو ہے؟ ڈھول ہندو ہے یا ڈھول کی تھاپ ہندو ہے؟ قہقہے ہندو ہیں یا پھر یہ مونگ پھلی اور ریوڑیاں ہندو ہیں ؟

آپ کو بتاتی چلوں کہ چناب کے کنارے اس تہوار کو لوہی کہتے ہیں اور راوی کے کنارے اس کو لوہڑی کہا جاتا ہے یہ پنجاب کا ایسا قدیمی تہوار ہے جس کے ساتھ کئی طرح کے واقعات اور خیالات منسوب کئے جاتے ہیں لیکن ایک بات پر سب کا اتفاق ہے کہ یہ مل بیٹھنے اور خوشیاں منانے کی ایک ریت و رواج ہے۔

 ویسے تو یہ رسم پنجابی ثقافت میں نہ جانے کب سے چلتی آ رہی ہے لیکن جدید پنجابی کلچر میں اس کو نئی  پہچان دلا بھٹی نے دی وہ واقعہ کچھ یوں ہے کہ اکبر کے دور میں ایک ظالم جاگیردار نے ایک  ہندو لڑکی اغوا کر لیا تھا  جس سے دلا بھٹی نے اس کو رہا کروا کر اس کو بیٹی کی طرح رخصت کیا۔ اور اس کی  پسند کی جگہ اس کی شادی کروائی ۔ رخصتی ہندوازم کی ریت کے مطابق  آگ کا الاؤ جلا کر سندرمندئیے کا گیت گایا۔ یوں اس کے بعد لوگ لوہڑی مناتے وقت اب بھی دلا بھٹی کو یاد کرتے ہیں اور اس کی بہادری کے گیتوں پر رقص کرتے ہیں۔

لوہڑی کو بدلتے موسموں کا تہوار بھی کہا جاتا ہے۔ چونکہ یہ پنجابی مہینے ماگھ کی پہلی رات سے منائی جاتی ہے کیونکہ ماگھ کا مہینہ سردی کے شدید ترین مہینے پوہ کے فوری بعد آتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں سردی کی شدت میں کمی اور بہار کی آمد کی نوید بھی لوہڑی کی نشانی ہے۔ اسی طرح لوہڑی پنجاب کے مختلف علاقوں میں ایک سال کے اندر پیدا ہونے والے بچوں کی اجتماعی خوشی منانے سے بھی منسوب ہے۔

ماگھ کی پہلی رات میں پچھلے ایک سال میں کسی گاؤں میں پیدا ہونے والے بچوں کے والدین سے معمولی معاوضہ لیا جاتا ہے اس معاوضے کو ’لوہی مانگنا‘ کہتے ہیں پیسے اکھٹے ہونے بعد گاؤں کے لوگ اکھٹے ہو کرآگ کے آلاؤ کے گرد بیٹھ کر مونگ پھلی اور ریوڑیاں کھاتے ہیں اور پنجابی کے دوہڑے ماہیئے گاتے اور داستان گوئی کرتے ہیں۔

پچھلی دو دہائیوں سے بہرحال یہ رسم اور یہ تہوار مغربی پنجاب کے دیہاتوں سے مکمل طور پر غائب ہو چکا ہے۔ تاہم اب شہروں میں کچھ سر پھرے ان رسموں کو دوبارہ زندہ کرنے کے لئے کوشاں ہیں۔ لاہور میں ہونے والے لوہڑی کے فنکشن اسی کی جدید مثال ہیں ۔

ساشا جاوید ملک ایک ترقی پسند سماجی کارکن اور صحافی ہیں۔