کیا اس ملک کے عام لوگوں کی قسمت میں صرف مرنا لکھا ہے؟

کیا اس ملک کے عام لوگوں کی قسمت میں صرف مرنا لکھا ہے؟

اس سال کے آغاز میں اسلام آباد کی ایک شاہراہ پر جب ایک نوجوان اسامہ ستی کو پولیس کی طرف سے بیدردی سے گولیاں مار کر ہلاک کیا گیا۔ تو دل دکھ سے چھلنی ہوگیا تھا۔ کیونکہ اس نوجوان کے ساتھ اس کے خوب صورت خواب بھی دم توڑ گئے تھے ۔ سوشل میڈیا پر شور ہوا ۔ واقعہ کا نوٹس لیا گیا ۔ تحقیقاتی رپورٹ میں یہ ثابت ہوگیا کہ نا صرف پولیس والوں نے گاڑی کو چاروں اطراف سے گولیاں چلائیں۔ بلکہ اس کے بعد خون میں لت پت اس نوجوان کو ہسپتال بھی نہیں لے جایا گیا ۔ اور اس کی گاڑی کے اردگرد گاڑیاں کھڑی کردی گئیں تاکہ معصوم اسامہ کی موت کو یقینی بنایا جاسکے۔ اس سب کے باوجود پولیس والوں کے خلاف شاید کوئی کاروائی نہیں کی جائے گی ۔ کیونکہ اسامہ ستی ایک عام پاکستانی تھا۔


اس کے کچھ دنوں بعد ہی بلوچستان کے علاقے مچھ میں گیارہ غریب کان کنوں کو اس وجہ سے ماردیا گیا کہ ان کا تعلق ایک خاص مسلک سے تھا ۔ ان کے لواحقین نے ان کی لاشیں رکھ کر احتجاج کیا۔ پھر اس ریاست کے حکمران کی طرف سے ایک بے حسی کا ایسا مظاہرہ سامنے آیا جس کی کوئی مثال شاید ہی مل سکے ۔ ان لواحقین کو وزیراعظم صاحب کے وہاں جانے کے مطالبہ پر بلیک میلر کہا گیا ۔ ان کو ان کے مطالبات کے پورا ہونے کا وعدہ کیا گیا ۔ انہوں نے اپنے پیاروں کو دفنا دیا ۔ وزیر اعظم صاحب پھر ان سے ملنے وہاں تشریف لے گئے ۔ مگر ان کے پیاروں کو مارنے والوں کو پکڑنا تو درکنار ان کا تھوڑا سا سراغ بھی ابھی تک نہیں مل سکا  اور شاید ملے بھی ناں ۔ کیونکہ مرنے والے  ایک خاص مسلک سے تعلق تو رکھتے ہی تھے مگر غریب اور عام پاکستانی بھی تھے۔ 


اسی طرح فیصل آباد میں پولیس کی طرف سے ایک نوجوان وقاص گجر کو گولیاں مار کر ہلاک کردیا گیا ۔ وجہ یہ بتائی گئی کہ اسامہ ستی کی طرح وہ پولیس چیک پوسٹ پر رکا نہیں تھا ۔ وقاص کا چھوٹا سا بیٹا اب بھی اپنے بابا کو ڈھونڈتا ہوگا کہ وہ پتا نہیں واپس کیوں نہیں آرہے ؟  مگر اس کی بیوہ کو یہ یقین ضرور ہوگیا ہوگا کہ اس کے شوہر کو ایسے بیدری سے مارنے والوں کے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہوگی ۔ نہ ہی اس کو انصاف ملے گا ۔ کیونکہ وقاص اس ریاست کا ایک عام شہری تھا ۔


اور اب اسلام آباد ہی میں ایک ایسا دلخراش واقعہ رونما ہوا ہے جس نے پھر سے روح کو تڑپا دیا ہے ۔ اسلام آباد کی سری نگر ہائی وے پر ایک تیز رفتار لیکساس گاڑی نے ایک مہران گاڑی کو کچل دیا ۔ جس سے اس مہران گاڑی میں سوار پانچ میں سے چار نوجوان موقع پر ہی جاں کی بازی ہار گئے ۔ یہ چار نوجوان مانسہرہ شہر سے آنکھوں میں کتنے ہی خواب سجائے اینٹی نارکوٹکس فورس کا امتحان دینے کےلئے آئے تھے ۔ جب ان کے گھر والے ان کی واپسی کی راہ تک رہے تھے ان کو اپنے پیاروں کے مرنے کی خبر دے دی گئی ۔ اپنے پیاروں کو اس حال میں دیکھ کر وہ تو جیتے جی مر گئے ہوں گے۔


ان کو موت کے منہ دھکیلنے والی لیکساس گاڑی وفاقی محتسب محترمہ کشمالہ طارق کی تھی۔ جس میں وہ اپنے شوہر کے ساتھ موجود تھیں ۔ اس گاڑی کو چلانے والے نے اپنے اشارہ بند ہونے کے باوجود بھی تیز رفتاری سے سامنے کھڑی مہران گاڑی کو کچل دیا۔ سی سی ٹی وی فوٹیج میں یہ منظر تو دیکھا جاسکتا ہے مگر ڈرائیور کی شناخت ممکن نہیں ہوسکی ۔ عینی شاہدین کے مطابق اس گاڑی کو چلانے والا کوئی اور نہیں بلکہ کشمالہ صاحبہ کا صاحب زادہ ہی تھا۔ اسی لیے  ایف آئی آر میں اس کو ہی نامزد کیا گیا اور ان کی قبل از گرفتاری ضمانت بھی حاصل کرلی گئی ۔ دوسری طرف کشمالہ طارق صاحبہ نے ایک جذباتی پریس کانفرنس کی ۔


جس میں ایک طرف تو انہوں نے یہ کہا کہ گاڑی ان کا بیٹا نہیں بلکہ ان کا ڈرائیور چلا رہا تھا ۔ ان کا بیٹا تو پچھلی گاڑی میں تھا۔  اسی لئے ان کے ڈرائیور نے اپنی غلطی تسلیم کر کے خود کو پولیس کے حوالے بھی کردیا ہے ۔ دوسری طرف انہوں نے مہران گاڑی کے ڈرائیور کو غلطی کا مرتکب ٹھہرایا اور قیمتی جانوں کے ضیاع پر افسوس کا اظہار بھی کیا ۔ ان کا یہ دعویٰ تو سی سی ٹی وی فوٹیج سے غلط ثابت ہوجاتا ہے کہ غلطی مہران گاڑی والے کی تھی ۔ اور دوسرا دعویٰ کہ ان کا بیٹا گاڑی نہیں چلا رہا تھا اس کی تصدیق با آسانی موٹروے کے ٹول پلازہ کی فوٹیج سے کی جاسکتی ہے ۔ کیونکہ یہ سب احباب لاہور سے اسلام آباد آرہے تھے ۔ مگر شاید یہ ممکن نہ ہوسکے ۔ کیونکہ یہ سب بہت طاقت ور لوگ ہیں ۔ اور مارے جانے والے بیچارے عام پاکستانی تھے۔


تو جیسے اسامہ ستی کو انصاف نہیں ملا ۔ مچھ کے کان کنوں کو انصاف نہیں ملا ۔ وقاص گجر اور اس جیسے اور بھی بہت سے عام پاکستانیوں کو انصاف نہیں ملا ویسے ہی اس حادثہ میں اپنی جانیں گنوانے والے نوجوانوں کو بھی انصاف نہیں ملے گا ۔ کیونکہ ان سب کو مارنے والے بہت طاقت ور تھے اور یہ بیچارے بہت کمزور ۔ اور اس ریاست میں تو قانون ہی طاقت کا چلتا آیا ہے ۔ یہاں قانون کی طاقت نہیں ہے اس لیے یہاں کے عام اور غریب لوگوں کی قسمت میں بس مرنا ہی لکھا ہے ۔ اور شاید یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہے گا ۔

مصنف جامعہ پنجاب سے ابلاغیات میں ماسٹرز کر چکے ہیں، سیکولرازم کے حامی اور سیاست، ادب اور موسیقی سے شغف رکھتے ہیں۔