ہیٹ ویو: کراچی درجہ حرارت کا اک جزیرہ کیوں اور کیسے بنا؟

ہیٹ ویو: کراچی درجہ حرارت کا اک جزیرہ کیوں اور کیسے بنا؟
گرمی پاکستان کے دوسرے شہروں میں بھی پڑتی ہے  مگر گنجان آباد  ساحلی شہر ہونے کی بدولت کراچی  خاص طور پر خطرے کی زد میں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شہر کراچی میں  گرمی کی شدت میں بتدریج اضافہ ہوتا ہوا نظر آرہا ہے یہ حقیقت  بالکل  عیاں ہے  کہ کراچی میں گرمی کا دورانیہ بڑھتا ہی جا رہا ہے کراچی میں سال کے بارہ مہینوں میں سے  چھ ماہ شدید گرمی اور باقی کے تین ماہ جھلسادینے دینے والی گرمی پڑتی ہےجبکہ تین ماہ معتدل اور نسبتا ٹھنڈے قرار دیئے جاسکتے ہیں -اس کی ایک بڑی وجہ شہرکا تیزی سے بے ہنگم پھیلاؤ اور اس میں کنکریٹ کا زیادہ استعمال ہے-یہ عام مشاہدہ ہے کہ   شہر کراچی بہت  تیزی سے پھیلتا جارہا ہے اور درخت اور سبز مقامات  ختم ہوتے جارہے ہیں اور ان کی جگہ ٹھوس ڈھانچے ، عمارتیں اور سڑکیں تعمیر ہوتی جارہی ہیں  اور عمارتیں بھی اونچی  بنائی جارہی ہیں  جوکہ زیادہ گرمی جذب کرتی ہیں اور پھر  جب یہی عمارتیں اسی جذب گرمائش  کو خارج کر تی ہیں تودن کے ساتھ ساتھ  راتیں بھی گرم محسوس ہوتی ہیں  ۔ یوں قدرتی گرمی کنکریٹ کے سبب مزید شدید ہو جاتی ہے۔ جدید طرزِ زندگی  کی خواہش میں ہم نے اپنے شہر کو  کنکریٹ کے جنگل میں  تبدیل کردیا ہے جس کا یقیناََ ماحول اور موسم پر اثر پڑ رہا ہےاوراب موسم کی شدت دیکھنے میں آرہی ہے۔

شہرکراچی کے اکثر  پارک ایسے ہیں کہ اب وہاں بھی عمارتیں تعمیر ہو چکی ہیں۔ باقی ماندہ پارک تباہ حالی کا شکار ہیں  سبزے کے نام پرصرف گھاس نظر آتی ہے  درختوں کا تو سرے سے تصور ہی نہیں ملتا- پہلے پارک کا ایک فطرتی ماحول آبادی کا حصہ ہوا کرتا تھا جہاں بھنورے، پرندے، تتلیاں نظر آیا کرتے تھے-ہم نے  اپنے بزرگوں سے ضرور سنا ہے کہ شہر کراچی  بہت سرسبز ہوا کرتا  تھااورپرانے اور گھنے درخت ہر جگہ موجود تھے۔ تمام بڑی شاہراہوں کےدونوں جانب برگد، نیم یا پھر پیپل  کے درخت  کافی قریب قریب  ہوا کرتے تھے ۔کراچی  میں چھوٹا بڑا کوئی گھر ایسا نہ ہوتا تھاجہاں ایک آنگن اور اس میں ایک   درخت موجود نہ ہو بڑے گھروں میں  دو چار درخت تو لازم ہوا کرتے تھے۔  کہیں  پیپل، نیم، برگد، آم، امرود تو کہیں  جنگل جلیبی، چیکو،جامن، پپیتا بلکہ املی تک کے درخت  جگہ جگہ  لگے نظر آتے تھے۔اس کےعلاوہ تقریبا ہر دوسرے گھر میں کیاری کا تصور موجود تھا  جہاں سبزیاں اگائی جاتی تھیں۔آج صورتحال یہ ہے کہ  صرف  چند گھروں میں درخت نظر آتے ہیں اور سبزیاں اگانے کا تو کوئی سوچ بھی نہیں سکتا- درختوں کی کمی نےشہر کراچی کے موسم پر  مزید بدترین اثرات مرتب کیے۔

پھر بھی کراچی میں کچھ مقامات ایسے ہیں جہاں کثیر تعداد میں درخت نظر آتے ہیں  بلکہ مختلف طرح کے  چرند پرند کی چہچہاہٹ بھی خوشگوار تاثر دیتی ہے یہ ہیں شہر کراچی کے کچھ قبرستان جہاں عموما  نیم کے درخت ملتے ہیں  مگر اس کے علاوہ بھی مختلف اشجار  موجود ہیں جیسے سخی حسن قبرستان یا عظیم پورہ قبرستان یہ  وہ مقامات ہیں کہ اگر  اس کی زمین پر  درختوں کی گنجانیت کا تخمینہ لگایا جائے تو فیریئر ہال کے مقابلے میں یہاں درخت زیادہ ہونگے یوں مجموعی طور پر  یہ قبرستان بھی شہر کراچی اور اس کے مکینوں کے لئے آکسیجن حب ہیں یا دوسرے الفاظ میں  زندگی فراہم کرنے میں مددگار ہیں-

جبکہ دوسری جانب موسم کی تبدیلی کے نتیجے میں ہمارے ماحول کی نمی برقرار رکھنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے ، جس کا مطلب ہے مرطوبیت میں اضافہ ہے۔ اور ایک  ساحلی شہر ہونے کی وجہ سے کراچی اس سے  خاص طور پر متاثر ہورہا ہےکیونکہ بڑھتی ہوئی نمی کے ساتھ درجہ حرارت میں اضافہ صریحا تباہی کا پیش خیمہ ہے۔ یہی وجوہات ہیں کہ  موجودہ سال بہار کے موسم میں شہرکراچی کے مکینوں  نے سال کی پہلی شدید گرمی کی لہر کا سامنا کیا اور  اپریل  کے پہلے ہفتے  میں مرکری کی سطح بڑھ کر 44 ڈگری سینٹی گریڈ تک جا پہنچی اور  ایسا ہی درجہ حرارت 1947 میں اپریل کے مہینے میں ریکارڈ کیا گیا تھا جوکہ انتہائی شدید گرم موسم کی  نشاندہی   کرتا ہے۔

موسمیاتی تبدیلیوں کے سبب نہ  سردی  کا موسم باقی رہا اور نہ ہی مون سون  کا مخصوص انداز،   چند گھنٹوں میں  مہینوں اور دنوں کی بارش  جس سے شہری نظام منٹوں میں تہ و بالا ہوجاتا ہے اور پھر اس کے بعد پھر وہی قیامت کی گرمی  جسکی بڑی وجہ سمندری ہواؤں کی بندش اور سمندر کے علاوہ کسی دوسری جانب سے ہواؤں کا آنا ہوا کرتا ہے ۔اس بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کے اثرات سب سے زیادہ کراچی جیسے شہروں میں مزدوروں اور صنعتی کارکنوں اور ان غریب اور پسماندو طبقات پر پڑ رہے ہیں  جنہیں  ایئر کنڈیشنگ  اور گرمی سے نمٹنے والے دیگر آلات تک رسائی حاصل نہیں  اوران  غریبوں میں غریب ترین  وہ ہیں جنہیں پانی اور بجلی تک میسر نہیں ہے۔یوں  یہ  بڑھتا ہوا درجہ حرارت غربت  اور پسماندگی میں اضافے کا باعث بنتا  ہے  کیونکہ اس سے  صحت عامہ  خراب ہوتی ہے  کیونکہ کراچی وہ شہر ہے  جہاں 65٪ آبادی  یعنی 19.5ملین افراد  غیر رسمی آبادیوں میں رہنے پر مجبور ہیں اور ان کی اکژیت  کوبنیادی ضروریات زندگی  میسر نہیں  اور وہ انتہائی غربت میں زندگی گزار رہے ہیں۔ ان 19.5 ملین افراد میں ایک بڑی تعداد خواتین کی ہے جن کے مسائل جو کہ گرمی سے جڑے ہیں  ان پر کوئی بات کرنے اور سوچنے والا نہیں  جبکہ گرمی میں اضافہ خواتین کو غیرمتناسب انداز میں متاثر کرتا ہے-

اگر اقوام متحدہ کی رپورٹس کو دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ پچھلے دو سالوں کے درمیان دنیا بھر میں قدرتی آفات سے ہونے والی اموات میں سے 13 فیصد شدید درجہ حرارت یا دیگر الفاظ میں حرارت کا اشاریہ  بڑھنے کی وجہ سے ہوئیں ۔ حرارت کا اشاریہ( Heat Index)  جسےظاہر درجہ حرارت کے نام سے بھی جانا جاتا ہے  یہ ہوا کے درجہ حرارت اور تقابلی نمی کو یکجا کرتا ہے۔ یہ اس بات کا ایک اندازہ ہے کہ درجہ حرارت انسانی جسم کو کتنا گرم محسوس کرتا ہے۔

عالمی موسمیاتی تبدیلیوں  کے باعث پچھلے 100 سالوں میں عالمی سطح پر درجہ حرارت میں 15 سے 16 ڈگری سینٹی گریڈ تک اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان خصوصا جنوبی خطہ موسمیاتی تبدیلیوں سے شدید متاثر ہوا جس میں کراچی شامل ہے ۔ کراچی جو کبھی اپنے معتدل موسم کے لئے مشہور تھا بد ترین موسمیاتی تبدیلیوں کی زد میں ہےصرف  رواں سال مرکری 44 ڈگری سینٹی گریڈ تک جا پہنچا۔ جبکہ 2015 میں شدید گرمی کے باعث ہونے والی اموات  ایک ناقابل فراموش سانحہ ہے جس میں سیکڑوں شہری جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور ہزاروں بیمار ہوئے۔- کراچی کا درجۂ حرارت بڑھنے کی وجوہات  میں سے  ایک اہم وجہ شہر کی بڑھتی آبادی اور تعمیرات ہیں۔ ماہرینِ تعمیرات اس بڑھتی گرمی کا ایک سبب تعمیراتی اسلوب اور ڈیزائن کوبھی ٹھہراتےہیں کیونکہ تعمیرات میں اب نہ ہی ہوا کا رُخ دیکھا جاتا ہے اور  نہ ہی  روشن دان  بنائے جاتے ہیں اور یہ بے ہنگم تعمیرات اقتصادیات پر بوجھ  ثابت ہوتی ہیں  کیونکہ  اور اس سے توانائی کی ضرورت بڑھتی ہے

موسمیاتی تبدیلی کی ایک اور اہم وجہ ایندھن اور ایئر کنڈیشنرز کا  تیزی سے بڑھتا ہوا استعمال بھی ہے جس کی بدولت شہر میں کاربن کا اخراج بڑھ رہا ہے  جبکہ پہلے ہی درختوں اور ہریالی کی کمی ہے تو یہ توازن بگڑتا جارہا ہے یوں شہر میں گاڑیوں کی تعداد میں اضافہ اور مشینیوں کی وجہ سے توانائی کا بے دریغ استعمال   شہر کے درجہ حرارت کو بڑھانے  میں ممدودو معاون ثابت ہوتا ہے اور حرارت کا اشاریہ بڑھ جاتا ہے ۔ماضی میں سمندری ہوائیں کراچی کے موسم کو معتدل رکھتی تھیں   مگر اب صورتحال قدرے مختلف نظر آتی ہے  کہ  ساحل کے ساتھ بلند و بالا عمارتیں ہیں  جن کے سبب  سمندری ہوا کا راستہ رک گیا  تو دوسری جانب سیمنٹ کے ڈھانچے بہت زیادہ گرمی جذب کرنے لگے اور یوں شہر کا درجہ حرارت بڑھتا چلا گیا ۔

اربن پلانر، ریسرچر کراچی اربن لیب آئی بی اے