کوفہ کا قصرِ امارت اور ہمارے قصرِ امارت کا المیہ

کوفہ کا قصرِ امارت اور ہمارے قصرِ امارت کا المیہ
یہ اس زمانے کی بات ہے جب اسلام کے بیعت کے جمہوری علامت والے سیاسی نظام کی جگہ یزید کی شکل میں وراثتی ملوکیت اور آمریت کا نظام رائج ہو چکا تھا اور نوزائیدہ اسلامی مملکت میں ہر طرف بدامنی، فساد اورانتشار کا دور تھا مسلمان ایک دوسرے کے گلے کاٹ رہے تھے۔

حضرت امام حسین ؑ اور دیگر اہلِ بیت کی شہادت کے بعد انتقام در انتقام کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو چکا تھا۔ اور کوفہ کا قصرِامارت یا شاہی محل ان خونریز سازشون کا مرکز تھا۔ کوفہ کا قصرِامارت میں ہر صاحبِ اقتدار کی خدمت میں اس کے مخالف کا سر کاٹ کر بطورِ نذرانہ پِیش کیا جاتا۔ یزید کی موت اور اس کے بیٹے معاویہ ثانی کی تین ماہ کی خلافت سے دستبرداری کے بعد مروان بن حکم ایک سال کیلئے خلیفہ رہا۔ پھر اسکی موت کے بعد عبدا لمالک بن مروان خلیفہ بنا۔

اس وقت تک مکہّ،مدینہ اور فارس کے دیگر علاقوں پر عبداللّہ بن زبیر اور ان کے بھائی مصعب بن زبیر کی حکومت تھی۔ جس کا دارلخلافہ کوفہ تھا۔ کوفہ میں حضرت مسلم بن عقیل کی شہادت سے لیکر حضرت امام حسین ؑ سمیت کئی قابلِ احترام ہستیوں کا خون بہایا گیا تھا۔عبدالملک بن مروان کا معرکہ مصعب بن زبیرسے کوفہ میں ہی ہوا۔ جس میں مصعب بن زبیر کو شکست ہو گئی۔ کوفہ میں عبدلملک پہنچا تو اس کی خدمت میں مصعب بن زبیر کا سر پِش کیا گیا۔ اس کے متعلق ایک واقعہ یہ بھی مشہور ہے کے خلیفہ عبدلملک کے حضور جب مصعب بن زبیر کا سر پیش کیا گیا تو اس محفل میں ایک شا عر بھی أگیا۔ اس نے تقریب کو شعروں میں بیان کیا کہ

"یہی کوفہ کا قصرِامارت ہے جہاں مسلم بن عقیلِ فرستادۂ حضرات امام حسین کاسر ابنِ زیاد کے سامنے پیش کیا گیا، پھر نواسۂ رسول حضرت امام حسین کا سر ابنِ زیاد کے پیش کیا گیا۔ پھر ابنِ زیاد کا سر مختار ثقفی کے حضور اسی قصرِامارت میں پیش کیا گیا۔ پھر مختار ثقفی سر اسی جگہ مصعب بن زبیرکے حضور پیش کیا گیا۔ آج پھر مصعب بن زبیر کا سر اسی قصرِامارت میں حضورِ والا کی خدمت میں پیش کیا گیا ہے۔خدا جانے أئندہ کیا ہونے والا ہے۔"

کہتے ہیں عبدالملک یہ سن کر گھبرا گیا اور اس نے اسی وقت کوفہ کا قصرِامارت گرائے جانے کا حکم صادر فرما دیا اور اس کی جگہ نیا قصرِامارت تعمیر کیا گیا۔

اس چودہ سو سالہ پرانے واقعے کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ایسا ہی ایک قصرِامارت ہمارے ہاں بھی ہے۔ جس میں ہر وقت اقتدار کی میوزیکل چئیر کا کھیل جاری رہتا ہے۔ قائد اعظم کی مشتبہ رحلت سے اس کا أغاز ہوا اور محلّا تی سازشوں کے ذریعے یہ کھیل أج تک جاری ہے۔ لیاقت علی خان جو پاکستان کے پہلے وزیرِاعظم تھے۔ انہیں راولپنڈی میں گولی مار کر شہید کر دیا گیا ان کے قاتلوں کا آج تک کوئی سراغ نہیں مل سکا۔ پھرخواجہ ناظم الدین کی حکومت کو نام نہا د ”گندم بحران“ کے تحت بر طرف کر دیا گیا۔ سازشی گروہ نے اس کے یکے بعد دیگرے حسین شہید سہروردی،چودھری محمد علی،أئی أئی چندریگر اور فیروز خان نون کی حکومتوں کو چلتا کیا ۔ پاکستان میں حکومتوں کی تبدیلی اتنی تیزی سے ہوتی رہی کہ ہندستانی وزیر اعظم جواہر لال نہرو کو کہنا پڑا کہ میں اتنی جلدی دھوتی نہیں بدلتا جتنی جلدی پاکستان میں وزیر اعظم بدل جاتا ہے۔

سکندر مرزا اور جنرل ایوب خان نے مل کر پاکستان میں رہی سہی جمہوری حکومتوں کو بھی ختم کر دیا۔ جبکہ 27اکتوبر 1958کو ایوب خان نے سکندر مرزا کا پتہ بھی کاٹ دیا اور اس ملک کا پہلا مطلق العنان حکمران بن گیا۔اب پاکستان کاقصرِامارت جمہوریت کی قتل گاہ میں تبدیل ہو گیا۔ اپنے شخصی اقتدار کی خاطر پاکستان بنانے والوں کو غدّارِ وطن قرار دے دیا گیا۔ جس میں بابائے قوم کی ہمشیرہ اور قریبی رفقاء بھی شامل تھے۔ سیاستدانوں کو بدنام کرنے کے لئیے نت نئے قوانین بنائے گئے۔ یوں جمہوریت کے عمل کے ذریعے وجود میں أنے والا ملک عوامی حاکمیت کا مدفن بن گیا۔ جس کے نتیجے میں ملک ٹوٹ گیا مگر ہمارا قصرِامارت مسلسل جمہوری حکومتوں کی قتل گاہ بنا رہا۔

یہاں کبھی ذولفقار علی بھٹو کا سر ضیاء الحق کے سامنے پش کیا گیا اور کبھی بینظیر بھٹوکو پرویز مشرف کی حکومت میں جان کی قربانی دینی پڑی۔ کبھی نوازشریف کو لایا گیا اور پھر اسے مجرم بنا کر جلا وطن کر دیا گیا۔ اب وہی کہانی عمران خان کے حوالے سے دہرائی جارہی ہے۔ ہمارے قصرِامارت کا المیہ یہ ہے کہ یہاں پاکستان کے قیام کا باعث بننے اور پوری دنیا میں کامیابی سے چلنے والے ”جمہوری نظام“ کی بجائے ہر طرح کا غیرجمہوری نظام آزمایا گیا۔ گویا ہم کسی اور سیاّرے کی مخلوق ہیں۔ لیکن ان خود ساختہ نظاموں نے ہمیں بحرانوں سے نکالنے کی بجائے مزید بحرانوں میں دھکیل دیا ہے۔ جسکی وجہ سے آج پاکستان معاشی،سماجی اور سیاسی عدم استحکام کے اُس مقام پر آ گیا ہے جہاں اسکی بقا خطرے میں پڑ چکی ہے۔ کیا اب بھی وہ وقت نہیں آیا کہ ہم اپنے آئینی انحراف والے”قصرِامارت“کو گِرا دیں اور آئین کی پاسداری کی مضبوط بنیادوں پر اسے دوبارہ تعمیر کریں؟

ڈاکٹر خالد جاوید جان ایک ترقی پسند سماجی کارکن اور شاعر ہیں۔ وہ مشہور زمانہ نظم ’ میں باغی ہوں ‘ کے مصنف ہیں۔