باغوں کا شہر دنیا کا آلودہ ترین شہر بن گیا، ماحولیاتی ایمرجنسی لگانے کی ضرورت ہے

باغوں کا شہر دنیا کا آلودہ ترین شہر بن گیا، ماحولیاتی ایمرجنسی لگانے کی ضرورت ہے
ماحولیاتی آلودگی اس وقت وطن عزیز پاکستان کا عمومی اور پنجاب کے چند بڑے شہروں بالخصوص لاہور کا خصوصی مسئلہ بنا ہوا ہے۔ یہ مسئلہ ترقی یافتہ ممالک جیسے کے امریکہ،کینیڈا،برطانیہ وغیرہ میں کافی حد تک قابو میں ہے کیوںکہ ان ممالک میں شعور اور وسائل کو عوام کی جانیں بچانے کے لیے بروئے کار لایا جاتا ہے۔ ہمارے ہمسایہ ملک بھارت میں اور ہمارے ہاں بھی یہ آلودگی کم ہونے کی بجائے ہر سال بڑھتی ہوئی نظر آتی ہے۔

ہمارے ہاں لاہور کی یہ صورتحال ہے کہ ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے ایک دھند کی چادر سی تنی دکھائی دیتی ہے جس کو سموگ کا نام دیا گیا ہے۔ اس کی وجہ سے پچھلے کچھ ہفتوں سے لاہور کبھی دنیا بھر کے آلودہ شہروں میں پہلے نمبر پر آ جاتا ہے اور کبھی دہلی یا ڈھاکہ آجاتے ہیں مگر لاہور کی پوزیشن آلودہ شہروں میں پہلے دو نمبروں میں سے کسی ایک پر بدستور قائم ہے۔

اس آلودگی کی بڑی وجہ گاڑیوں میں غیر معیاری تیل کا استعمال، فیکٹریوں کا دھواں اور فضلہ، درختوں کی کمی اور فصلوں کی کٹائی کے بعد بچے کھچے مواد کو آگ لگانا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے دنیا کے دیگر ممالک سے لاہور کے باسیوں کی مدد کا مطالبہ کیا ہے۔ ایک برطانوی انسانی حقوق کی تنظیم نے اس امر کا خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ہوا کی گھٹیا کوالٹی کی وجہ سے لاکھوں لوگوں کے سانس کی بیماریوں میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہے۔

اس خدشے کا اظہار اس سے اگلے دن کیا گیا جب لاہور کی ہوا کا کوالٹی انڈیکس 598 تھا جب کہ 300 سے زیادہ کا کوالٹی انڈیکس صحت کے لیے غیر معیاری اور خطرناک تصور کیا جاتا ہے۔ لاہور جو ایک طرف باغوں کا شہر کہلاتا ہے مگر آج کل وہ آلودہ شہروں میں سرفہرست ہے۔اس آلودگی کی وجہ سے شہریوں کی اوسط زندگی کی شرح بھی 5 سے 6 سال ان کی مجموعی زندگی سے گھٹ چکی ہے اور دیگر بیماریاں اس کے علاوہ ہیں۔

اس صورتحال میں تعلیمی اداروں میں بھی کچھ روز کی چھٹیاں کی گئی ہیں اور کچھ انتظامیہ کے افراد اس آلودگی کی وجہ فیکٹریوں سے نکلنے والے فضلے اور دھویں کو قرار دے رہے ہیں۔ بدقسمتی سے ماسک کا استعمال بھی دیکھنے میں کم نظر آیا ہے۔ لاہور کے باسیوں کو چاہیئے کہ ماسک کا استعمال زیادہ سے زیادہ رکھیں، اس کی ایک وجہ تو کرونا بھی ہے اور دوسری وجہ اب یہ آلودگی ہے۔

حکومتی ذمہ داران کو بھی انتظامیہ کے ساتھ مل کر اس مسئلہ کو سنجیدہ لینا ہو گا اور باغات کے شہر سے آلودگی کم کرنے کے لیے درختوں کی کٹائی روکتے ہوئے زیادہ درختوں کے لگانے کو فروغ دینا ہو گا۔ اس کے علاوہ گاڑیوں اور فیکٹریوں کے دھوئیں پر بھی قابو پانا ہو گا۔ فصلوں کی کٹائی کے بعد بچے کھچے مواد کو جلانے سے روکنے کے لیے بھی سخت لائحہ عمل اپنانا ہو گا۔

اس آلودگی کے روکنے کے لیے ہم سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔اس میں انفرادی طور پر ہر شخص اور مجموعی طور پر حکومت اور انتظامیہ ذمہ دار ہے۔ اگر ہم اس آلودگی کو روکنے میں ناکام رہے تو اپنی نسلوں کے مجرم ٹھہریں گے اور اپنے ساتھ ان کی زندگیوں سے بھی کھیلنے والے ہوں گے۔اس میں یقیناً زیادہ اہم کردار حکومت وقت کو ادا کرنا ہو گا اور زبانی دعووں کی بجائے ہنگامی بنیادوں پر فضائی آلودگی کے تدارک کے لیے عمل کرنا ہو گا۔

احتشام اعجاز بھلی ان دنوں امریکہ میں مقیم ہیں اور U.S. Press Association کے ممبر ہیں۔ وہ پیشے کے لحاظ سے وکیل ہیں اور لاہور ہائی کورٹ کے تاحیات رکن ہیں۔