پاکستانی سیاست کا شعلہ بیانی سے زہر افشانی تک کا سفر

پاکستانی سیاست کا شعلہ بیانی سے زہر افشانی تک کا سفر
وطن عزیز کی سیاست شعلہ بیانی سے ہوتی ہوئی اب زہر افشانی تک پہنچ گئی ہے۔ بد قسمتی سے ہم پچھلے 72 سالوں میں بہتر سیاسی کلچر بنانے ناکام رہے جہاں سیاسی مخالفین کے ساتھ رکھ رکھاؤ تحمل اور برداشت کے ساتھ بات کی جائے۔ ہمارے کچھ یار لوگ اس سارے طوفان بدتمیزی اور بد زبانی کا الزام عمران خان پر لگاتے ہیں، خدا جانے کیا بات ہے ہمارے کچھ دانشور صحافی احباب عمران خان کی نفرت میں اس حد تک مبتلا ہیں کہ وہ بہتان بازی میں ملکی سیاسی تاریخ کو نظر انداز کر جاتے ہیں یہ نظر انداز کرتے ہوئے کہ طوفان سیاسی بد زبانی کب اور کہاں سے شروع ہوا

چونکہ ہمارے یہ احباب صحافی اور دانشور اس قوم کا حصہ ہیں جو اندھی نفرت اور اندھی محبت میں مبتلا ہے اس لئے وہ دانشورانہ بد دیانتی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔

ہمارے ہاں سیاست میں خواتین کی کردار کشی کرنا فوجی حکمران جنرل ایوب خان کے عہد سے شروع ہوا جب مادر ملت فاطمہ جناح کی کردار کشی شروع ہوئی، اسکے بعد نصرت بھٹو اور بینظیر بھٹو کی کردار کشی کی گئی جس میں اس وقت کی مسلم لیگ ن کی قیادت نواز شریف، شہباز شریف اور شیخ رشید کا ہاتھ تھا۔ اسکے جواب میں پیپلز پارٹی کی طرف سے بھی مریم نواز کی کیپٹن صفدر کے ساتھ ہونے والی اچانک شادی پر بھی بہت کچھ کہا گیا، حیرت انگیز طور مریم نواز کی کردار کشی کرنے والے رانا ثنا اللہ جو اس وقت پیپلز پارٹی میں تھے اب مسلم لیگ ن پنجاب کے صدر ہیں اور پارٹی کے اہم ترین رہنما ہیں۔

اسی طرح مسلم لیگ ن نے عمران خان کی سابقہ اہلیہ جمائما گولڈ سمتھ کے بارے میں گھیٹا زبان بولی اور ان پر ٹائلوں کی سمگلنگ کا بے بنیاد مقدمہ بنایا۔ وہ بے چاری اس قدر خوفزدہ ہوئی کہ واپس برطانیہ چلی گئی اور عمران خان کے ساتھ انکی طلاق کا اہم ترین پہلو یہ بھی تھا کہ اس وقت شریف برادران وقت کے فرعون بنے ہوئے تھے کہ ان کو نہیں معلوم تھا کہ آج وہ جن عورتوں بےنظیر بھٹو اور جمائما گولڈ سمتھ پر مقدمے بنا رہے ہیں آگے جا کر انکی اپنی عورتوں مریم نواز اور نصرت شہباز پر بھی مقدمے بنے والے ہیں۔

بہرحال یہ سب مکافات عمل کا حصہ ہے مگر سم ظریفی یہ ہے کہ ان لوگوں نے وقت سے کچھ نہیں سیکھا، آج ایک گھریلو خاتون اول بشریٰ بی بی کے بارے میں گھیٹا زبان بولی جا رہی ہے۔

لیکن ہم کو یہاں ایک بات خاص طور پر دیکھنے کی ضرورت ہے کہ صرف عورتوں کی کردار کشی کرنے پر احتجاج نہیں کرنا چاہیے بلکہ مردوں کی کردار کشی کی حوصلہ شکنی بھی کرنی چاہیے ،چاہے وہ بلاول بھٹو زرداری کے حوالے سے ہو یا پھر مراد سعید کے حوالے سے ۔

کردار کشی کی حوصلہ شکنی بلا امتیاز عورت اور مرد کے حوالے سے ہونی چاہیے، ریحام خان کی جس کتاب کا حوالہ دیا جاتا ہے اس میں مراد سعید کے حوالے سے کچھ بھی نہیں ہے، یہ سب کچھ بہت منظم طریقے سے کیا گیا ہے مراد سعید چونکہ مڈل کلاس سے تعلق رکھنے اور اپنے لیڈر کا سب سے بڑھ کر دفاع کرنے والوں میں سے ایک ہیں اس لئے ان کو ٹارگٹ کیا جا رہا ہے۔ ریحام خان نے کن عزائم کے تحت عمران خان سے شادی کی تھی وہ پورے نہ ہونے پر طلاق ہو گئی ، طلاق کے بعد ریحام خان کی کتاب اور ایک ٹی وی چینل میں نوکری میں مبینہ طور پر نون لیگ کا ہاتھ بتایا جاتا ہے۔ کتاب کی اشاعت سے پہلے کتاب کا کچھ حصہ عوام میں آگیا جس میں مراد سعید کے حوالے سے گھٹیا زبان لکھی گئی مگر جب کتاب شائع ہوئی تو اس میں وہ حصہ شامل نہیں تھا اس لئے قانونی کارروائی نہیں ہو سکتی۔ البتہ کتاب میں جو الزامات زلفی بخاری پر لگائے گئے تھے اس پر زلفی بخاری نے ریحام خان پر لندن میں مقدمہ کیا۔ ریحام خان نے نہ صرف زلفی بخاری سے معافی مانگی بلکہ ان کو مقدمے کے اخراجات بھی ادا کیے۔

چلتے چلتے گیلپ سروے والے اعجاز شفیع جو پہلے جماعت اسلامی کے ساتھ تھے اب نون لیگ کے ساتھ ان کے سروے میں انکشاف ہوا کہ نواز شریف خیبر پختونخوا میں مقبولیت میں سب سے آگے ہیں۔ اس سروے نے یہ نہیں بتایا کہ اگر نواز شریف کی مقبولیت خیبر پختونخوا میں سب سے زیادہ ہے تو حالیہ بلدیاتی انتخابات میں نون لیگ کو عبرتناک شکیست کیوں ہوئی ہے۔

حسنین جمیل 17 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ افسانوں کی تین کتابوں؛ 'کون لوگ'، 'امرتسر 30 کلومیٹر' اور 'ہجرت' کے مصنف ہیں۔