کیا افغان طالبان سے اشرف غنی کی حکومت اچھی تھی؟

کیا افغان طالبان سے اشرف غنی کی حکومت اچھی تھی؟
آخر وہی ہوا جس کا ہمیں پہلے سے خدشہ محسوس ہورہا تھا۔ میں پہلے بھی لکھا چکا ہوں کہ اگر سرحد پار افغانستان سے کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان کی کاروائیاں اس طرح تسلسل سے جاری رہتی ہیں تو پھر پاکستان کے پاس اور کوئی آپشن نہیں رہے گا سوائے اس کے کہ جوابی کاروائی کرکے افغانستان میں ٹی ٹی پی کے ٹھکانوں کونشانہ بنائےاور بالاآخر وہی ہوا بھی۔

16 اپریل کو پاکستان کے جیٹ طیاروں نے افغانستان کے دو سرحدی صوبوں خوست اور کونڑ میں بمباری کی جس میں چالیس کے قریب افراد ہلاک ہوئے۔ پاکستان میں سرکاری ذرائع کادعویٰ ہے کہ اس کاروائی میں ٹی ٹی پی کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا جبکہ افغانستان سے ملنے والی اطلاعات میں دعوی کیا جارہا ہے کہ ان واقعات میں بیشتر عام شہری ، خواتین اور بچے لقمہ اجل بنے ہیں۔ افغانستان کے مقامی صحافیوں کا کہنا ہے کہ خوست میں پاکستان کی طرف سے ڈرون طیاروں سے کاروائی کی گئی جبکہ کونٹر میں جیٹ طیاروں سے میزائل داغے گئے۔ ان حملوں میں ٹی ٹی پی کے ساتھ ساتھ حافظ گل بہادر گروپ کے جنگجوؤں کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے۔ ایک اطلاع یہ ہے کہ کونڑ میں جس مکان پر حملہ ہوا وہاں ٹی ٹی پی کے ایک اہم کمانڈر موجود تھے تاہم یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ اس حملے میں کوئی کمانڈر مارا گیا ہے یا نہیں۔

ادھر طالبان حکومت کی طرف سے اس واقعے پر خلاف توقع محتاط ردعمل ظاہر کیا گیا ہے۔ کابل میں متعین پاکستان کے سفیر کو افغان دفتر خارجہ طلب کیا گیا جہاں افغان حکام نے خوست اور کنڑ کے کچھ حصوں میں پاکستانی افواج کے حالیہ حملوں کی شدید مذمت کی اور مزید ایسے حملے نہ کیے جانے کا مطالبہ کیا۔ طالبان کے مطابق انھوں نے پاکستانی سفیر سے کہا ہے کہ ’خوست اور کنڑ سمیت تمام عسکری خلاف ورزیوں کو روکنا ضروری ہے اور اس طرح کے واقعات سے دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی پیدا ہو سکتی ہے۔ جس کے برے نتائج برامد ہوں گے۔‘

دریں اثناء افغانستان کے کچھ شہروں میں پاکستان کےحملوں کے خلاف احتجاجی مظاہروں کا انعقاد ہوا جس میں افغان علاقوں پر بمباری پر شدید غم و غصے کا اظہار کیا گیا۔

پاکستان کی طرف سے سرحد پار یہ کاروائی ایسے وقت کی گئی ہے جب ملک میں کالعدم تنظیم ٹی ٹی پی کے حملوں میں بے تحاشا اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔

جب سے کابل میں امارت اسلامی کی حکومت قائم ہوئی ہے اس کے بعد سے ان ساڑھے سات ماہ میں سرحد کے اس پار ٹی ٹی پی کی طرف سے دو سو پچاس کے لگ بھگ حملوں کا دعوی کیا گیا ہے۔

ٹی ٹی پی کی طرف سے ذرائع ابلاغ کو جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ سال ستمبر میں تنظیم کی طرف سے کل 37 حملوں کا دعویٰ کیا گیا، اکتوبر میں 24 ، نومبر میں چار، دسمبر میں 45 حملے، جنوری میں 42 ، فروری میں 24 ، مارچ میں 39 اور اپریل میں اب تک بائیس حملوں کا دعوی کیا گیا ہے۔ ان حملوں میں مختلف رپورٹوں کے مطابق دو سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں جس میں سکیورٹی فورسز کی ایک بڑی تعداد شامل ہے جبکہ 300 کے لگ بھگ افراد زخمی ہوئے۔

ٹی ٹی پی نے یکم رمضان المبارک سے ’البدر’ کے نام سے نئی کاروائیوں کا آغاز کیا ہے جس سے ان کے حملوں میں مزید تیزی دیکھی جارہی ہے۔ پہلے تو تنظیم کی طرف سے صرف سرحدی اضلاع شمالی، جنوبی وزیرستان، مہمند اور باجوڑ کے علاقوں میں سکیورٹی اہلکاروں پر حملے ہوتے رہے ہیں لیکن اب اس کا دائرہ شہری علاقوں تک تیزی سے پھیل رہا ہے۔

خیبر پختونخوا میں حیران کن طورپر ان حملوں کا مرکز صوبائی دارالحکومت پشاور بنتا جارہا ہے جہاں ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ تین ماہ سب سے زیادہ حملے ہوئے جس میں 76 افراد لقمہ اجل بنے۔ ٹی ٹی پی کے حملوں کے ساتھ ساتھ دولت اسلامیہ یا داعش کی کاروائیوں میں بھی تیزی دیکھی جارہی ہے۔

ادھر پاکستان فوج کا کہنا ہے کہ ٹی ٹی پی کے ساتھ اس وقت کسی قسم کے کوئی مزاکرات نہیں ہورہے بلکہ اب تو ان کے خلاف بھر پور کاروائیاں کی جارہی ہیں۔ پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار نے چند دن پہلے روالپنڈی میں ایک پریس بریفنگ کے دوران صحافیوں کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ قبائلی اضلاع میں جہاں جہاں دہشت گردوں کی موجودگی پائی جاتی تھی وہاں ان کے خلاف بھرپور حملے کئے جارہے ہیں اور ان کو وسیع پیمانے پر نقصان پہنچایا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان آپریشنز کے نتیجے میں ٹی ٹی پی کی صلاحیت کو خاطر خواہ حد تک کمزور کیا گیا ہے اور ان کوکسی صورت میں کامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ سکیورٹی فورسز نے اس جنگ میں بڑی قربانیاں پیش کیں ہیں جسے کسی صورت بھلایا نہیں جاسکتا۔

اس تمام معاملے کا سب سے افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ افغانستان میں اگر ڈاکٹراشرف غنی کی حکومت قائم ہوتی تو شاید ان سے اتنا گلہ نہ ہوتا کیونکہ اس حکومت کے ساتھ ابتداء ہی سے پاکستان کے زیادہ دوستانہ مراسم نہیں رہے تھے لیکن امارت اسلامی جس کا پاکستان دنیا بھر میں وکیل بنا ہوا ہے، ان کے دور میں اگر اس طرح کی دراندازی ہوتی ہے تو اسلام آباد کو یقینی طورپر مستقبل کا لائحہ عمل سوچنا ہوگا۔

افغان طالبان کی خاطر پاکستان کے امریکہ سے تعلقات بدترین سطح تک پہنچے۔ امریکی صدر جوبائیڈن اگر سابق وزیراعظم عمران خان کو ٹیلی فون نہیں کرتے تھے تو اسکی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ ہم دنیا بھر میں طالبان کی وکالت کررہے تھے اور افغانستان میں دوسری طاقتوں کے مقابلے میں امارت اسلامی کی حمایت کی۔

لیکن موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے اب تو پاکستان میں بھی یہ آوازیں اٹھنے لگی ہے کہ طالبان سے اچھی تو ڈاکٹر اشرف غنی کی حکومت تھی، کم ازکم وہ بات کی گہرائی اور سفارتی آداب تو سمجھتے تھے۔

افغان طالبان ایک تو کھلے عام دوحہ معاہدہ کی بھی خلاف ورزی کررہے ہیں ۔ ان کی طرف سے امریکہ سمیت پوری دنیا سے وعدہ کیا گیا تھا کہ افغان سرزمین کسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہوگی۔ لیکن اسلام آباد کی جانب سے کم از کم تین مرتبہ سرکاری سطح پر یہ کہا جاچکا ہے کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہوئی ہے لیکن اس کے باوجود روک تھام کے ضمن خاطر خواہ اقدامات نظر نہیں آتے۔

افغان سرزمین سے پاکستان میں حملوں سے اگر ایک طرف انسانی جانیں ضائع ہورہی ہیں تو دوسری طرف اس سے دنیا بھر میں طالبان کا مقدمہ بھی بری طرح کمزور پڑ رہا ہے۔ امارت اسلامی کو کمزور معشیت اور داعش سےنمٹنا جیسے مسائل کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں ان کی حکومت کو تسلیم کئے جانے کا بڑا چیلنج بھی درپیش ہے۔

لیکن یہاں اہم سوال یہ ہے کہ اگر پاکستان کے خلاف افغان سرزمین استعمال ہوسکتی ہے تو کیا افغانستان کے دیگر پڑوسی ممالک کے خلاف نہیں ہوسکتی؟

علاقائی ممالک یقینی طورپر اس صورتحال کا بغور جائزہ لے رہے ہونگے اور وہ یہ سوال کرنے میں بھی حق بجانب ہونگے کہ اگر امارت اسلامی اپنے سب سے قریبی دوست پاکستان جیسے ملک میں اپنے ہاں سے دراندازی بند نہیں کرسکتا تو پھر چین، روس، ایران اور وسطی ایشیائی ریاستیں کس کھیت کی مولی ہیں؟

دوسری طرف ٹی ٹی پی کا معاملہ اب انتہائی سنگین رخ اختیار کرچکا ہے۔ ہمیں لگتا ہے کہ ہمارا اب بھی تمام تر انحصار افغان طالبان پر ہے حالانکہ اس معاملہ میں امارت اسلامی سہولت کار تو بن سکتی ہے لیکن گارنٹر نہیں، لہذا ہمیں اس مسلے کا خود ہی حل تلاش کرنا ہوگا۔ یہاں ایک سوچ پائی جاتی تھی کہ شاید امارت اسلامی کے آنے سے جیسے ہمارے تمام مسائل چٹکی میں حل ہوجائیں گے لیکن اب تو ثابت بھی ہوگیا کہ ایسی کوئی بات نہیں اور آئندہ اسی سوچ کے اردگرد اپنی توانائیاں ضائع نہیں کرنی چاہیے۔

مصنف پشاور کے سینیئر صحافی ہیں۔ وہ افغانستان، کالعدم تنظیموں، ضم شدہ اضلاع اور خیبر پختونخوا کے ایشوز پر لکھتے اور رپورٹ کرتے ہیں۔