گورنر صاحب ! خیبرپختونخوا کی یونیورسٹیوں میں کام کرنے والے کنٹریکٹ ملازمین پر نظر کرم کیجیئے

گورنر صاحب ! خیبرپختونخوا کی یونیورسٹیوں میں کام کرنے والے کنٹریکٹ ملازمین پر نظر کرم کیجیئے
ڈاکٹر عباد خیبر پختونخوا کی ایک یونیورسٹی میں گذشتہ دس سالوں سے پڑھا رہے ہیں۔ انہوں نے پی ایچ ڈی بیرون ملک سے کی۔ اس کو سپروائزر نے مشورہ دیا کہ وہ اس کے ساتھ بحیثیت اسٹنٹ کام کرے، اپنے ملک نہ جائے مگر وطن سے محبت اسے واپس لے آئی اور وطن عزیز آکر بہت مشکلوں سے اس نے یونیورسٹی میں ملازمت شروع کی۔

اس کو بتایا گیا کہ وہ بہت جلد مستقل ہو جائے گا مگر یہ ایک خواب تھا۔ اس نے چار سال تک اس خواب میں گزارے کہ وہ مستقل ہو جائے گا۔ اُس سے بیرون ملک سپروائزر والا کام بھی ہاتھ سے نکل گیا اور پھر ایک دن یونیورسٹی انتظامیہ نے اُسے کنٹریکٹ سے محروم کر دیا اور اس کی پوزیشن وزٹنگ کر دی گئی۔ یعنی اُسے یومیہ کلاس کے پیسے دئیے جاتے ہیں۔ جس میں ٹیکس کی کٹوتی کے بعد ان کی تنخواہ ایک دیہاڑی دار مزدور سے بھی کم رہ جاتی ہے۔

یہ کہانی ایک عباد کی نہیں ہے۔ یہ خیبر پختونخوا کی یونیورسٹیوں میں پڑھانے والے پروفیسرز، لیکچرز اور انتظامی امور سنبھالنے والے ملازمین کی ہے جو سالوں سے مستقلی کے خواب دیکھ کر بوڑھے ہو چکے ہیں۔ ان میں اکثریت اوور ایج ہو چکے ہیں اور وہ کسی دوسرے ادارے میں اپلائی کرنے سے محروم ہو چکے ہیں کیونکہ وطن عزیز میں اعلٰی تعلیم کو عام کرنے کے لئے یونیورسٹیوں کا جال بچھ گیا ہے مگر ان یونیورسٹیوں کو فعال بنانے کے لئے ملازمین کی مستقلی کا نظریہ ہی ختم کر دیا گیا ہے جس میں حکومت کے پیسے بچ جاتے ہیں کیونکہ ان ملازمین پر سالانہ اینکریمنٹ وغیرہ لاگو نہیں ہوتے نہ ہی یہ پنشن وغیرہ کے حقدار ہوتے ہیں۔

ان کو جب چاہے نکال کر یونیورسٹی سے ٹشو کی طرح باہر پھینکا جائے جس کی کوئی داد رسی بھی نہیں ہو سکتی۔ ان ملازمین کی تعداد سینکڑوں سے نکل کر ہزاروں میں پہنچ چکی ہے جو کہ اپنی اپنی فیلڈ میں ماہر ہیں اور صوبہ بھر کی یونیورسٹیوں میں سالوں سے پڑھا رہے ہیں۔ ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔

ان اساتذہ سے حکومت کو بھی فائدہ ملتا ہے اور وائس چانسلر جو تین سال کے لئے زمینی خدا بن جاتا ہے وہ بھی فائدے اٹھاتا ہے کیونکہ وہ مستقل ملازمین سے اگر کوئی کام نکلوانا چاہتا ہے تو انہیں مشکل پیش آتی ہے اور ان اساتذہ سے جو کنٹریکٹ پر ہوتے ہیں اُن سے آسانی سے وہ اپنی بات منوا لیتے ہیں۔

مستقل ملازمین کہیں نہ کہیں روڑئے اٹکاتے ہیں یا یونیورسٹی میں اساتذہ یونین کی وجہ سے خاموش رہ جاتے ہیں۔ دوسری جانب اگر دیکھا جائے تو یونیورسٹیوں میں وائس چانسلروں کی بھرتی مکمل طور پر سیاسی ہوتی ہے۔ اس لئے وائس چانسلر یونیورسٹیوں میں تعینات ہو کر سیاسی زعمائوں کے رحم وکرم پر ہوتے ہیں۔

اُن کو احکامات وقتاً فوقتاً ملتے رہتے ہیں جس میں بیوروکریسی کا بھی ایک بڑا کردار ہوتا ہے کہ کسی نہ کسی اہم پوسٹ پر اُن کے بندے کو تعینات کیا جائے خواہ انہیں کچھ آتا ہو یا نہیں۔ اُس کی ڈگری اس پوسٹ سے مطابقت رکھتی ہو یا نہیں۔ بس کام ہونا چاہیے۔

جب وائس چانسلر ان احکامات سے روگردانی کرتا ہے تو انہیں مختلف طریقوں سے ٹارچر کیا جاتا ہے۔ انہیں کام کے لئے نہیں چھوڑا جاتا جس سے مجبور ہو کر وائس چانسلر وہ کام کرنے پر مجبور ہوتے ہیں جو نہیں کرنے چاہیے ہوتے۔

جب سے یونیورسٹیاں بنی ہیں تب سے ان یونیورسٹیوں میں مستقل، ایڈہاک، کنٹریکٹ، ڈیلی ویجز اور وزٹنگ بنیاد پر ہر شعبہ میں ملازمتیں دی جاتی ہیں جس میں مستقل ملازمت کے لئے ایک لمبا چوڑا پراسس طے کرنا ہوتا ہے۔

اخبارات میں اشتہارات دیئے جاتے ہیں۔ پھر سکروٹنی کی جاتی ہے، جس میں معیار پر نہ اترنے والے امیدواروں کو لیٹر جاری کئے جاتے ہیں کہ وہ اپیل کریں، اپیل کرنے کے بعد اپیلیٹ کمیٹی بنائی جاتی ہے جو امیدواروں کے کاغذات دوبارہ چیک کرتی ہے۔ اس کے بعد ٹیسٹ کا عمل ہوتا ہے۔

اس کے بعد ڈیمو، پھر انٹرویو کے پراسس سے امیدوار گزرتے ہیں اور آخر میں فائنل سلیکشن بورڈ ہوتا ہے جس میں سبجیکٹ سپیشلسٹ، سائیکالوجسٹ، فنانس، دو یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر سمیت اور ممبران بھی موجود ہوتے ہیں۔

اس عمل سے گزرنے کے بعد یہ یونیورسٹی کے سینڈیکیٹ پھر سیینٹ سے اپرو ہوتا ہے تب جا کر امیدوار کو ملازمت ملتی ہے۔ اس طرح اب ایڈہاک، کنٹریکٹ اور وزٹنگ کے لئے بھی یہی طریقہ استعمال کیا جا رہا ہے مگر اس میں تھوڑی تبدیلی ہوتی ہے کیونکہ یہ ملازمتیں کل وقتی ہوتی ہیں جس کا اختیار وائس چانسلر کے پاس ہوتا ہے۔ وہ جب چاہے پوسٹ پر بھرتی کرے اور جب چاہے کسی کو بغیر پوچھے فارغ کریں۔

قوانین بتاتے ہیں کہ ملازم کو تین سال تک ڈائریکٹ کنٹریکٹ پر رکھا جا سکتا ہے جس کے بعد وہ مستقل ہو سکتا ہے کیونکہ اس حوالے سے ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے آرڈرز موجود ہیں۔ بعض یونیورسٹیوں میں برسوں سے کام کرنے والے اساتذہ اور دیگر انتظامی امور پر کام کرنے والوں کو مستقل کر دیا گیا ہے۔

خیبر پختونخوا کی کچھ یونیورسٹیوں میں بھی بہت سے ملازمین مستقل ہو چکے ہیں مگر اکثر یونیورسٹیاں اب بھی کنٹریکٹ ملازمین، وزٹنگ، ڈیلی ویجز پر چل رہی ہیں۔ وہ اساتذہ کیا خاک پڑھایا کریں گے جن کو کل کا پتہ نہ ہو کہ شاید کل انہیں کہا جائے کہ آپ نہ آئیں آپ کی سروسز ادارے کو نہیں چاہیے۔ جس کے خلاف وہ کورٹ کے چکر بھی نہیں لگا سکتا کیونکہ وکیلوں کی فیس اور کورٹ کچہریوں کے چکر کاٹنے سے وہ معذور ہوتا ہے جس کی بنیادی وجہ یونیورسٹیوں کی جانب سے تگڑے وکلا کا پینل ہوتا ہے جس سے بعض اوقات ججز بھی مرعوب ہوتے ہیں۔

چونکہ یہ ایک یونیورسل مسئلہ بن گیا ہے۔ ہر ادارے نے اب یہ روش اپنا لی ہے کہ وہ ملازمین کو مستقل نہیں رکھ رہے بلکہ کم پیسوں پر ان سے دیہاڑی دار مزدور کی طرح کا م لیا جا رہا ہے۔ ایسے اساتذہ کرام بھی ہیں جو پی ایچ ڈی کرنے کے بعد پوسٹ ڈاکٹریٹ تک کر چکے ہیں انہیں بھی ان کا حق نہیں مل رہا۔

خیبرپختونخوا کی بہت سی یونیورسٹیوں میں گذشتہ دس سے پندرہ سالوں سے اساتذہ کنٹریکٹ پر ملازمتیں کر رہے ہیں۔ اگر یہ قابل نہیں ہوتے تو انہیں یونیورسٹی انتظامیہ ہر سال کنٹریکٹ کیوں دیتی ہے۔

ایسے اساتذہ بھی موجود ہیں جو دس سالوں سے پڑھا رہے ہیں ان کا کنٹریکٹ ختم کرکے انہیں فارغ کیا جا رہا ہے جو کہ ان کے ساتھ زیادتی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ صوبائی حکومت جو سکولوں کے ٹیچرز کو تو مستقل کرنے کے لئے منصوبہ بندی میں لگے ہیں کیونکہ یہ ان کے دور حکومت میں بھرتی ہوئے ہیں جو کہ سیاسی سکورنگ کے سوا کچھ نہیں جبکہ یونیورسٹیاں جو کہ اپنے فیصلے کرنے میں خود مختار ہوتی ہیں ان میں کام کرنے والے اساتذہ کی مستقلی کی راہ میں روڑے اٹکائے جاتے ہیں جو کہ اعلٰی تعلیم یافتہ افراد کے ساتھ زیادتی کے سوا کچھ نہیں ہے۔

حکومت اگر چاہے تو ان کنٹریکٹ، ڈیلی ویجز، ایڈہاک، وزٹنگ پر تعینات افراد کو ایک ایگزیکٹو آرڈرز کے ساتھ مستقل کر سکتی ہے اور یہ پالیسی بھی بنائی جا سکتی ہے کہ کسی بھی یونیورسٹی میں مستقل ملازمین کی تعیناتی کے سوا کوئی بھرتی نہیں کی جا سکتی جس سے مستقبل میں یہ حالات پھر نہیں آسکتے۔

اس لئے گورنر صاحب کیونکہ آپ صاحب اختیار ہیں اور ساری یونیورسٹیوں کے چانسلر ہیں۔ ان کے مسائل سے آپ بخوبی واقف ہیں لہذا گورنر صاحب ! خیبر پختونخوا کی یونیورسٹیوں میں کام کرنے والے کنٹریکٹ ملازمین پر نظر کرم کیجیئے۔

 

مصنف کالم نگار، فیچر رائٹر، بلاگر، کتاب 'صحافتی بھیڑیے' کے لکھاری اور ویمن یونیورسٹی صوابی میں شعبہ صحافت کے سربراہ ہیں۔ پشاور میں صحافت کا دس سالہ تجربہ رکھتے ہیں۔