پاکستانی جیلوں میں ایک علیحدہ سلطنت قائم ہے

پاکستانی جیلوں میں ایک علیحدہ سلطنت قائم ہے
پاکستان میں جیل کی الگ ہی ایک سلطنت ہے جس میں جیلر جیسا بااختیار شخص ایک مطلق العنان بادشاہ والے اختیارات اور طاقت رکھتا ہے۔ رواں سال 30 ستمبر کو پنجاب کے محکمہ داخلہ کے انٹیلی جنس سینٹر (پی آئی سی) نے چیف سیکرٹری پنجاب اور آئی جی جیل خانہ جات مرزا شاہد سلیم بیگ کو ڈسٹرکٹ جیل اٹک کے بارے میں ایک تحقیقی رپورٹ بھیجی۔

اس میں یہ کہا گیا کہ ڈسٹرکٹ جیل اٹک میں جنسی زیادتی کے واقعات اور منشیات کی خرید و فروخت اپنے عروج پر ہے۔ اٹک جیل کرپشن کا گڑھ بن چکی ہے جہاں منشیات فروشوں کی جڑیں بہت گہرائی تک پھیلی ہوئی ہیں اور وہ جیل انتظامیہ کو ان کا حصہ دینے کے بعد سرعام منشیات بیچنے کا کام کرتے ہیں۔

منشیات کی ترسیل کے بارے میں بتایا گیا کہ وہ ملاقاتیوں کے ذریعے جیل منتقل کی جاتی ہیں۔ ایک لڑکی کا ذکر بھی خصوصی طور پر کیا گیا جو ملاقاتی کے طور پر آ کے منشیات کی فراہمی کا کام کرتی ہے۔ چرس کی جو مقدار باہر کھلی فضا میں پانچ سو روپے میں میسر ہے وہی مقدار جیل میں تین سے ساڑھے تین ہزار میں سرعام بیچی جا رہی ہے۔ ملاقاتی سے ملاقات کرانے کے لئے پانچ سو سے دو ہزار روپے تک رشوت طلب کی جاتی ہے جب کہ پیسے والے امیر قیدیوں کو دس ہزار روپیہ کے عوض ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ جیل کے کمرے میں بٹھا کر اس کے اہل خانہ سے ملاقات کرائی جاتی ہے۔

قیدی پیسے دے کر اپنے گھر سے کپڑے منگوا سکتے ہیں اور ہر مہینہ رشوت دے کر روم کولر کی سہولت حاصل کر سکتے ہیں۔ بعض اوقات خواتین ملاقاتیوں کے ساتھ جنسی ہراسانی کے واقعات بھی سامنے آئے ہیں۔ عموماً اے اور بی کلاس کے علاوہ تمام قیدیوں سے مشقت لی جاتی ہے مگر لنگر خانے پرمتعین سو قیدیوں میں سے لگ بھگ ستر کے قریب پانچ ہزار روپے ماہانہ رشوت دے کر مشقت سے جان چھڑا لیتے ہیں اور ان کی کمی پوری کرنے کے لئے غریب اور مجبور قیدیوں کو جھونک دیا جاتا ہے۔

اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ جیل کے ڈاکٹر کے پاس تو محض چند درد کش ادویات ہیں جو وہ بے سہارا بیمار قیدیوں کو دے دیتے ہیں جب کہ مالدار قیدی جیل ڈاکٹر کے نسخے پر باہر سے ادویات منگواتے ہیں۔ اس کے علاوہ جیل میں ملاقات کے لئے جو خواتین آتی ہیں ان کی عزت کی پاسداری اور احترام کی خاطر جیل کے زنانہ عملے کو ان کی ذمہ داری سونپنے کی سفارش کی گئی ہے۔ یہاں بات صرف ملاقاتی خواتین تک ہی محدود نہیں بلکہ جیل میں قیدیوں کو بھی جنسی زیادتی اور ہراسانی سے بچانے کا کہا گیا ہے کیوں کہ اکثر نوعمر اور کمزور قیدیوں پر بھی دیگر قیدیوں یا عملے کی طرف سے جنسی ہراسانی کے واقعات دیکھنے میں آتے ہیں۔

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ قیدیوں کو بیماریوں سے محفوظ رکھنے کے لئے محکمہ صحت پنجاب کو جیلوں میں قیدیوں کی صحت کے نظام میں حصہ دار بنانا چاہیے۔ اس کے علاوہ منشیات کے عادی اور ذہنی مسائل میں مبتلا قیدیوں کو عام قیدی شمار کرنے کی بجائے ان کے علاج پر خصوصی توجہ دینے کا کہا گیا ہے۔

یہ تو کہانی ہو گئی اٹک جیل سے متعلق اس تازہ رپورٹ کی۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان کی تقریباً ہر بڑی جیل میں ایسی ہی کہانیاں چل رہی ہیں اور ان کے بارے میں بھی رپورٹیں تیار ہوتی رہتی ہیں مگر اس کے بعد نہ جانے کس گڑھے میں ان رپورٹوں کو دفن کر دیا جاتا ہے۔

ان ان گنت واقعات میں سے رواں برس جنوری میں ہونے والا ایک واقعہ بتاتا چلوں جو کہ ابھی حال ہی میں دیت کے نام پر معافی پانے والے بااثر قاتل مجرم شاہ رخ جتوئی کے بارے میں ہے۔ اس نے کمر درد اور معدہ کی بیماری کا بہانہ بنایا جس پر اسے چپکے سے جیل سے نجی اسپتال منتقل کیا گیا۔ پورا فلور اس کے لئے کرائے پر لیا گیا جہاں وہ پولیس کی موجودگی کے بغیر اسپتال سے باہر بھی آ جا سکتا تھا اور اسے بھرپور شاہانہ زندگی حاصل تھی۔ جب یہ خبر میڈیا کی زینت بنی تو اسے پھر سے جیل منتقل کر دیا گیا۔

غرض جیل کی سلطنت کی کہانی ایک لمبی کہانی ہے جسے جتنا کھولیں اتنی ہی الجھتی جائے گی۔ اس معاملہ میں اگر کوئی یہ کہے کہ جیل اصلاحات پوری طرح نافذ ہیں اور ان پر سختی سے عمل ہو رہا ہے تو اس کی بات ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دیں۔ جب تک مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ اپنا قبلہ درست نہیں کریں گی تب تک جیل کے بادشاہی نظام کے قصے یونہی چلتے رہیں گے۔

احتشام اعجاز بھلی ان دنوں امریکہ میں مقیم ہیں اور U.S. Press Association کے ممبر ہیں۔ وہ پیشے کے لحاظ سے وکیل ہیں اور لاہور ہائی کورٹ کے تاحیات رکن ہیں۔