ایک لیٹر پٹرول پر پورے پانچ روپے کی بچت!

ایک لیٹر پٹرول پر پورے پانچ روپے کی بچت!
جب سے ہوش سنبھالا ہے، مملکت خداداد میں دو ہی 'میچز' کا شور و غوغا سنا ہے؛ ایک کرکٹ اور دوسرا پٹرول۔ رہی بات سیاست کے 'ازلی' گیم کی تو اس شعبے کی گہرائی اتنی وسیع ہے کہ اس کو کسی میچ یا میدان میں ماپنا ممکن نہیں۔

کرکٹ میچز کا ذکر تو پی ایس ایل میں زور و شور سے ہو رہا ہے لیکن بات ہو جائے پٹرول کے تازہ میچ کی، جس میں وزیرِ خزانہ نے بقلم خود پورے پانچ روپے کے 'کھلے' کی پوری قوم کو خوشخبری سنائی ہے۔ اور یہ تو معلوم ہی ہے کہ ایسی خوش کن چیزیں بتانا تو ہمارے اربابِ اختیار کا حق ہے۔ اسحاق ڈار سے پہلے وزیرِاعظم شہباز شریف مفتاح جیسے 'بچے' کو سائیڈ پر رکھتے ہوئے خود ایسی دلپذیر خبر سناتے تھے، لیکن اب تو خیر ڈار جیسے سیانے 'سمدھی' موجود ہیں جو قوم کو یہ پانچوں انگلیوں کی سلامی اپنے منہ سے دینے کا اختیار رکھتے ہیں۔

البتہ قیمتیں بڑھنے کی خبر رات کے 12 بجے اس چپکے سے نشر کی جاتی ہے کہ آواز بھی نہ سنائی دے اور 'چوری' بھی ہو جائے! مجبوراً یہ اعلان پٹرول بھرتے ہوئے کسی لڑکے کو سنانا پڑتا ہے جو پھر اپنے سدا بہار حصے کی گالیاں بھی کھاتا ہے۔

ہماری 'خوش بختی' ہے کہ کم سے کم وزیر خزانہ ہماری سمجھ کا ہی آتا ہے جو پٹرول اور ڈالر کو لے کر عوام کو آگے لگائے رکھتا ہے۔ اس سلسلے میں کوکومو والے 'ڈاری' سازش کا شکار ہونے والے مفتاح اسماعیل ہوں یا قیصر بنگالی، ان کی باتیں ہمارے پٹرول بھرے معدے اور دماغ کی تشنگی تو نہیں کر سکتیں۔

ویسے پٹرول چیز ہی ایسی ہے جو بچوں سے بڑوں تک ڈائریکٹ اثر انداز ہوتی ہے۔ ہمارے بڑے فیول کی بڑھتی قیمت کی بدولت روز بڑھتی ہوئی مہنگائی کا رونا روتے ہیں تو نوجوان نسل کو دہی لینے جانے کے لیے بھی بائیک کی کک کی ضرورت ہوتی ہے۔ پیر تو عرصہ ہوا ہمارا ساتھ چھوڑ ہی چکے ہیں، اب تو سائیکل بھی کوئی قدیم زمانے کی چیز لگتی ہے۔ سپورٹس سائیکل کے علاوہ آخری 'سیکل' شاید ابرارالحق کے گانے میں دیکھی تھی جو کہ بہت پر 'نور' تھی اور 'آ جا نی بے جا سیکل تے' گانے میں صرف ڈانس کے ہی کام آئی تھی۔

حیرت اس بات سے ہے کہ لوگوں کو آلو پیاز کے اتار چڑھاؤ سے اتنا سروکار نہیں، آٹے کی قطار در قطار کو بھی اتنی 'ریٹنگ' نہیں ملتی جتنی اس گاڑیوں میں ڈلنے والے فیول کو ملتی ہے۔ لگتا ہے کہ لوگ نوالہ بھی پٹرول کا گھونٹ پی کر نگلتے ہیں۔ اس انمول معدنیات کی دریافت کے بعد لوگوں نے 'معشیت دانی' سے صرف ایک ہی بات سیکھی ہے کہ پٹرول کی قیمت بڑھے تو ساتھ ہی ہر چیز کی قیمت کو آگ لگ جاتی ہے۔ خیر کچھ کچھ اب امپورٹ ایکسپورٹ، افراط زر وغیرہ کا بھی پتہ لگنے لگا ہے کہ شاید یہ بھی ہمارے چولہوں پر اثرانداز ہوتے ہیں لیکن عموماً یہ باتیں ابھی تک 'بالا خانوں' تک محدود ہیں۔ ممکن ہے کہ 20 سے 30 سال بعد کسی 'نئے' عمران خان کی بدولت اسٹیبلشمنٹ کی 'جانکاری' کی طرح معیشت کے اصولوں کا بھی علم ہو جائے۔

اسحاق ڈار کی پٹرول کے بارے میں پانچ کے سکے کی پیش رفت کے بعد نیچے 'نظر بٹو' کے طور پر معیشت کے لحاظ سے 'معمولی' بری خبریں تھیں کہ موڈی نے پاکستان کی رینکنگ اور نیچے کر دی ہے اور آئی ایم ایف نے بدستور پاکستان کو گول دائروں میں گھمانے کا عندیہ دیا ہے۔ خیر موڈی کا موڈ ہو یا آئی ایم ایف کی گھمائیاں، ہمیں تو اپنے پٹرول سے غرض ہے جو ہر جگہ ہمارے کام آتا ہے حتی کہ چھڑک کر آگ لگانے میں بھی!

کیا کہا جائے کہ معیشت بارے کسی کو الف،ب بھی پتہ ہو تو اسے معلوم ہے کہ فیول کی یوں سبسڈی خود غریب عوام کے لیے زہر قاتل ہے جس میں اُن سے ایک روپے کی چھوٹ دے کر دس روپے نکلوائے جاتے ہیں۔ اس 'خاص و عام' والی رعایت کا فائدہ زیادہ تر امیر طبقہ، فور ویلرز اور ویگوز والے ہی لیتے ہیں جن کی ٹینکی غریب کی دس ہزار ٹینکیوں کے برابر ہوتی ہے۔ دوسرا ایسی غیر ٹارگٹڈ سبسڈی مجموعی معیشت کے لیے جاں بلب ہے اور جس طرح ہم گھٹنوں، کہنیوں کے بل رینگ اور تڑپ تڑپ کر گزارا کر رہے ہیں اس سے اچھا تو اپنے اوپر ہی پٹرول چھڑ ک کر۔۔۔ چھڑکنے کیلئے تو لے ہی سکتے ہیں، اب تو پانچ روپے سستا بھی ہو گیا ہے!

مصنف منصور ریاض ملکی اور بین الاقوامی سیاست پر گہری نظر رکھتے ہیں