موسمیاتی تبدیلیاں آبادی کے بڑے حصے کو نقل مکانی پر مجبور کر رہی ہیں

موسمیاتی تبدیلیاں آبادی کے بڑے حصے کو نقل مکانی پر مجبور کر رہی ہیں
آج ہم ایک غیر معمولی دور میں جی رہے ہیں۔ یہ ایسا دور ہے جس میں موسمیاتی تبدیلیاں اور اس سے جڑے بحران ہماری زندگیوں کے فیصلے کر رہے ہیں اور موسمی نازک حالات اور مستقل بحران میں جینا معمول بنتا جا رہا ہے۔ شدید گرمی کی لہروں، موسلا دھار بارشوں، خشک موسموں اور پانی کی قلت نے نہ صرف لوگوں کی زندگیوں پر گہرے اثرات مرتب کئے ہیں بلکہ حکومتی اداروں کو بھی سیکھنے اور سمجھنے کے کئی مواقع فراہم کئے ہیں۔ ناقص طرز حکمرانی، کمزور بنیادی ڈھانچے اور موسمیاتی پالیسی کی عدم موجودگی کے باعث موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کئی گنا بڑھ جاتے ہیں۔ پاکستان میں موسمیاتی نقل مکانی ایک حقیقت کے طور پر ابھر رہی ہے کیونکہ پاکستان نہ صرف دنیا کے ان دس ممالک میں شامل ہے جو موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں بلکہ ہمارا شمار ان ملکوں میں بھی ہوتا ہے جو ماحولیاتی تبدیلی کے روزمرہ اثرات سے نمٹنے کے لئے تیزی سے اقدامات بھی نہیں کر رہے۔ جیسے کہ رواں سال شدید گرمی کی لہروں کے فوراً بعد مون سون کی بے ترتیب اور شدید بارشوں کے ساتھ ہی پورا ملک سیلاب کی لپیٹ میں آ گیا جس سے لاکھوں لوگ متاثر ہوئے مگر ہم نے ان آفات سے نمٹنے کے لئے کچھ خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے۔

عالمی بینک کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت دنیا کی تقریباً 56 فیصدآبادی یعنی 4.4 بلین باشندے شہروں میں رہتے ہیں اور اس رجحان میں آنے والے دنوں میں مزید اضافہ ہونے کی توقع ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق 2050 تک شہری آبادی اپنے موجودہ حجم سے دوگنی ہو جائے گی یعنی دنیا کے 10 میں سے تقریباً 7 لوگ شہروں میں رہیں گے۔ شہری ماہرین اور رہنماؤں کو ترقی کی منصوبہ بندی کرنے اور بنیادی خدمات و سہولیات اور سستی رہائش گاہیں فراہم کرنے کے لئے تیزی سے آگے بڑھنا چاہئیے جو ان کی بڑھتی ہوئی آبادی کو درکار ہیں۔ لیکن شہروں میں بڑھتی ہوئی آبادی کا معاملہ مزید پیچیدہ ہوجاتا ہے جب اسے موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کے تناظر میں دیکھا جائے کیونکہ موسمیاتی تبدیلیوں کے سبب ہونے والی نقل و حرکت دنیا کے شہروں میں پہلے سے ہی جاری ایک بڑے پیمانے پر نقل مکانی میں مزید اضافہ کر رہی ہے۔ ایک جانب لوگ سمندروں میں پانی کی سطح میں اضافے، پانی کی قلت، فصلوں کی پیداوار میں کمی، ماحولیاتی نظام کے نقصان اور خشک سالی کی وجہ سے نقل مکانی پر مجبور ہو چکے ہیں تو دوسری جانب ناگہانی قدرتی آفات، جیسے کہ طوفان یا سیلاب کی وجہ سے بے گھر ہونے اور نقل مکانی کرنے والوں کی تعداد میں مزید اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔

اقوام متحدہ کی بین الاقوامی تنظیم برائے نقل مکانی کے مطابق 2020 میں دنیا میں تقریباً 281 ملین تارکین وطن موجود تھے جو کہ عالمی آبادی کا 3.6 فیصد حصہ بنتے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی کے بارے میں اقوام متحدہ کے بین الحکومتی پینل کی رپورٹ کے مطابق اگلے 30 سالوں میں سمندروں میں پانی کی سطح میں ہونے والے اضافے، خشک سالی، شدید درجہ حرارت اور دیگر موسمیاتی آفات سے 143 ملین لوگوں کے متاثر ہونے کا امکان ہے۔ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) کے مطابق 2008 کے بعد سے سالانہ اوسطاً 21.5 ملین لوگ موسمیاتی تبدیلیوں سے جڑے واقعات جیسے سیلاب، طوفان، جنگل کی آگ اور شدید درجہ حرارت کی وجہ سے مجبوراً بے گھر ہونے یا نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوئے ہیں اور اس تعداد میں اضافے کی توقع ہے۔ بین الاقوامی تھنک ٹینک انسٹی ٹیوٹ فار اکنامکس اینڈ پیس کی رپورٹ کے مطابق موسمیاتی تبدیلیوں اور قدرتی آفات کی وجہ سے 2050 تک عالمی سطح پر ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث ہجرت کرنے والوں کی تعداد 1.2 بلین ہو سکتی ہے۔

‏ماحولیاتی مہاجرین دراصل موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کی انسانی شکل بن کر سامنے آ رہے ہیں۔ عالمی بینک کی نئی رپورٹ "بڑھتی زمین – موسمیاتی تبدیلیوں کے سبب نقل مکانی کی تیاری" کے مطابق فوری عالمی اور قومی موسمیاتی کارروائی کے بغیر 2050 تک دنیا کے تین بڑے خطے افریقہ، جنوبی ایشیا اور لاطینی امریکہ 140 ملین سے زیادہ لوگوں کو اپنے ملکوں کی سرحدوں کے اندر نقل مکانی کرتے دیکھیں گے۔ ورلڈ بینک گروپ کے کام سے پتہ چلتا ہے کہ ایک اندازے کے مطابق جنوبی ایشیا میں اندرونی طور پر موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں 2050 تک 17 ملین سے 36 ملین تک نقل مکانیاں ہونے کا امکان ہے۔ بین الحکومتی پینل برائے موسمیاتی تبدیلی سمیت دنیا کے کئی معتبر تحقیقی اداروں نے پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیوں اور ان میں پیدا ہونے والی شدت کی جانب ہماری توجہ مبذول کرائی ہے۔ ہمیں بتایا گیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث مون سون کی بارشوں، سیلاب اور گرمی کی لہروں میں شدت آتی جا رہی ہے اور ناقص طرز حکمرانی اور کمزور بنیادی ڈھانچے کے سبب ہمیں زیادہ خطرات کا سامنا ہے مگر ہم نے بطور ملک ان انتباہی پیغامات پر ابھی تک خاطر خواہ توجہ نہیں دی اور خدشہ ہے کہ آنے والے سالوں میں بھی ہم اسی طرح کے مسائل میں گھرے رہیں گے۔

ایکشن ایڈ انٹرنیشنل اور کلائمیٹ ایکشن نیٹ ورک فار ساؤتھ ایشیا کی حالیہ تحقیق کے مطابق جنوبی ایشیا میں 18 ملین سے زیادہ لوگ پہلے ہی سمندر میں پانی کی سطح میں اضافے، سیلاب، فصلوں کی پیداوار میں کمی، ماحولیاتی نظام کی تبدیلی اور خشک سالی کی وجہ سے نقل مکانی پر مجبور ہو چکے ہیں اور 2050 تک یہ تعداد 62 ملین تک جا پہنچے گی۔

پاکستان میں پچھلی دہائی میں موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ہجرت کرنے والوں میں اضافہ دیکھا گیا۔ بالخصوص دیہی علاقوں سے لوگ موسمی آفات کی وجہ سے شہروں کی طرف نقل مکانی کر رہے ہیں۔ اس کی وجوہات میں قحط سالی، فصلوں کی پیداوار میں کمی، سمندر کی سطح میں اضافہ اور بارشوں کا زیادہ برسنا شامل ہیں۔ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے 2050 تک پاکستان میں تقریباً 20 لاکھ افراد کے موسمیاتی مہاجرین بننے کی توقع ہے۔ گلوبل کلائمیٹ رسک انڈیکس کے مطابق پچھلی دو دہائیوں میں پاکستان میں 152 شدید موسمی واقعات ہوئے جن میں 9 ہزار سے زائد جانیں گئیں۔

آج ملک کا ایک تہائی حصہ زیرآب آ چکا ہے۔ وفاقی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کی جانب سے جاری کیے جانے والے اعداد وشمار کے مطابق 14 جون سے اب تک تقریباً ڈھائی ماہ میں 1396 افراد کے جاں بحق ہونے کی تصدیق ہو چکی ہے جس میں 499 بچے اور280 خواتین شامل ہیں جب کہ زخمیوں کی تعداد 12728 تک جا پہنچی ہے۔ 17 لاکھ سے زائد گھر تباہ ہو گئے ہیں۔ 7 لاکھ سے زیادہ مویشی ہلاک ہوئے ہیں- موسلا دھار بارشوں اور سیلاب سے تقریباً 33 ملین سے زائد آبادی شدید متاثر ہوئی اور سرکاری طور پر81 اضلاع کو آفت زدہ قرار دیا گیا ہے جن میں بلوچستان کے 32، سندھ کے 23، خیبر پختونخوا کے 17، گلگت بلتستان 6 اضلاع شامل ہیں۔ 6 لاکھ سے زیادہ لوگ نقل مکانی کے باعث کیمپوں میں مقیم ہیں جن میں سے بہت سے لوگوں کے پاس مناسب پناہ گاہ اور مناسب خوراک، صاف پانی اور صفائی ستھرائی تک رسائی نہیں ہے۔

ضروری امر یہ ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے باعث آنے والی تباہی کے نتیجے میں ہجرت کرنے والوں کو لاوارث نہ چھوڑا جائے۔ ان کی مالی و معاشرتی مشکلات کم کرنے کے لئے حکومتی سطح پر اہم اقدامات وقت کی اہم ضرورت ہیں۔ پھر موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ہجرت کرنے والوں کے درست اعداد و شمار جمع کرنے سے دوبارہ ان کے آبائی علاقوں میں ان کی آباد کاری بھی ممکن ہے جس سے شہروں پر پڑنے والے دباؤ کو کم کیا جاسکے گا ورنہ شہر کے شہر بے ترتیب کچی آبادیوں میں تبدیل ہوتے جائیں گے۔

اربن پلانر، ریسرچر کراچی اربن لیب آئی بی اے