آرمی چیف کی تعیناتی صرف 'واشنگٹن شریف' کا استحقاق ہے

آرمی چیف کی تعیناتی صرف 'واشنگٹن شریف' کا استحقاق ہے
منظر 1:
قلندر کا آستانہ۔ سیلاب پاکستان کو برباد کر چکا ہے۔ لاکھوں بھوکے ننگے بے آسرا لوگ کھلے آسمان تلے بیٹھے ہیں۔ بلوچستان میں را، موساد، کے جی بی، سی آئی اے اور ایم آئی سکس کا راج ہے۔ آئے روز یہ بندے غائب کر دیتے ہیں۔ قلندر بھی ایک ہفتے سے غائب ہے۔ کچھ پتہ نہیں کہاں ہے۔ آستانے کی ڈپٹی، ملکہ کتھک ریشماں اس کی گدی پر براجمان ہے۔ گھمبیر صورت حال ہے۔ بھنگ اور چرس کے دور پر دور چل رہے ہیں۔ مریدوں میں ایک سنجیدہ مسئلے پر گرما گرم بحث جاری ہے۔ گفتگو سیر حاصل رہے، چوّلوں، گالم گلوچ یا ہاتھا پائی میں نہ بدل جائے، اس امر کو ریشماں بطور ناظمہ یعنی ماڈریٹر یقینی بنا رہی ہے۔ موضوع ہے تو پرانا اور گھسا پٹا یعنی آرمی چیف کی تعیناتی مگر اس بار باسی کھانا نئی پلیٹ میں پیش کیا جا رہا ہے۔ فساد کی جڑ ہے کالا رہو، گورا چٹا جوان مرید جس پر ریشماں سمیت آستانے کی سبھی باحیا خواتین اندر ہی اندر فریفتہ ہیں۔ 'پیار کیا تو ڈرنا کیا!'

'لو دیکھ لو۔ اپنے مید گل (سابق سربراہ آئی ایس آئی) کیا کہہ رہے ہیں اس انٹرویو میں۔ فوج کا اپنا بندہ اعتراف کر رہا ہے کہ پاکستان میں آرمی چیف امریکہ بہادر کی مرضی کے بغیر تعینات نہیں ہو سکتا۔ ہم سب ابھی تک امریکہ ہی کے غلام ہیں۔' کالا رہو پاکستانی اینکروں کی طرح گلا پھاڑ پھاڑ کر بار بار یہی راگ الاپ رہا ہے۔

'بالکل غلط۔ ہوتا ہوگا کسی زمانے میں مگر اب نہیں ہوتا۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ شوبز شریف پچھلے چھ دن سے وڈے پائےآن کے گوڈوں میں بیٹھا ہوا ہے، اس انتظار میں کہ قرعہ فال کس کے نام نکلے گا۔' سفید رہو کہتا ہے جو کالے رہو کا کالا بُھجنگ جڑواں بھائی ہے۔ دونوں کی جائے پیدائش قلندر کا آستانہ ہے۔

'بند کرو یہ بکواس!' قلندر کی گونج دار آواز سن کر ریشماں سمیت سبھی سہم جاتے ہیں۔ نہ جانے کہاں سے اچانک نمودار ہو جاتا ہے۔ سب کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ایک ہی جملہ ان کے منہ سے بیک وقت نکلتا ہے؛ سرکار آپ!'

'ہاں تم سب کا باپ! بیٹھ جاؤ۔' قلندر کہتا ہے اور اپنی گدی سنبھال لیتا ہے۔
'سرکار آپ کہاں تھے اتنے دن؟ ہم نے تو آپ کی رپورٹ مسنگ پرسن والے کمیشن کو بھی کر ڈالی تھی۔' ریشماں کہتی ہے۔

'یہ تو بعد میں بتاؤں گا کہ میں کہاں تھا اور کیا کر رہا تھا۔ پہلے تم لوگوں کی جہالت کا علاج کر دوں!'
"کالے رہو تُو! اور سفید رہو تُو! دونوں اپنی اپنی جگہ ٹھیک کہتے ہو۔ حمید گل اس آستانے کے مرید تھے۔ ہماری بہت بے تکلفی تھی۔ ان کی بات سرد جنگ والے وقت کے پس منظر میں درست ہے۔ اس وقت امریکہ ہم پر ڈالروں کی بارش کر رہا تھا کیونکہ سوویت یونین کو بے سُرا اور بے تالا کرنا تھا۔ اس لئے آرمی چیف اس کی مرضی کے بغیر لگانا ممکن نہ تھا۔ اور یہ لندن کے He Fled والے فلیٹ پر جو نوٹنکی چل رہی ہے بادی النظر میں درست ہے۔ پر 'ہیں کواکب کچھ، نظر آتے ہیں کچھ!' حمید گل کا ڈاکٹرائن آج بھی زندہ اور سلامت ہے!"
قلندر فخر سے دونوں ہاتھ بلند کر کے کہتا ہے۔
'کون سا ڈاکٹر سرکار؟' کالا رہو بولا۔
'ابے وہی جس کے بارے میں تُو کتے کے موافق دس گھنٹوں سے نان سٹاپ بھونک رہا ہے۔' قلندر غصے سے کہتا ہے۔ سب سمجھ جاتے ہیں کہ اب آئی کم بختی کالے رہو کی!
'سرکار جان کی امان پاؤں تو کچھ عرض کروں؟' کالا رہو ہاتھ جوڑ کر اور سر جھکا کر پوچھتا ہے۔
'ابے بک!' قلندر اجازت دیتا ہے۔

'امریکہ کی غلامی میں کم از کم احساس فخر تو ہے! گلیمر تو ہے! نخرہ تو ہے۔ کالا آدمی گورے کی غلامی کرتا جچتا بھی ہے۔ کیا وقت آ گیا ہے اب کالا آدمی کالوں کا ہی غلام بن چکا ہے۔ وہ فوج جس کا ڈھانچہ گورے نے دیا، اب اس مقام پر پہنچ گئی ہے کہ اس کے چیف کا فیصلہ کالے کریں گے اور وہ بھی لندن بیٹھ کر۔ ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ پاک فوج جو خالصتاً پیشہ ور سپاہ ہے جس کے چیف سے لے کر سپاہی تک، ہر مجاہد سچائی، ایمان داری، بہادری، جرات، اصول پرستی، ملک سے وفاداری اور عوام سے پیار کی جیتی جاگتی تصویر ہے۔ ایسی با کردار، با صفات، با حیا اور فرشتہ صفت فوج کا سپہ سالار یہ 'چور'، 'ڈاکو'، 'لٹیرے'، 'جھوٹے'، 'خائن' اور 'اشتہاری' لندن کی سرزمین جہاں ہر قسم کی برائی جنم لیتی ہے، جہاں قانونی سرپرستی میں مرد مرد سے اور عورت عورت سے شادی کرتی ہے، پر بیٹھ کر اسلام کی سب سے بڑی فوج کا سپہ سالار منتخب کریں گے! بہت بڑی غلطی کر بیٹھے آپ کے مرید باجوہ صاحب۔ ڈیڑھ ہی سال تو رہ گیا تھا۔ رہنے دیتے پاٹے خان کو۔ مزید چوّلیں مارتا اور اتنا بدنام ہوتا کہ اگلے چناؤ میں ضمانت ضبط ہو جاتی۔ اگر اسے نکالنا ہی تھا تو اس کی جگہ کسی معین قریشی کو لے آتے۔ اپنی ریشماں ہی کو لگا دیتے وزیراعظم۔ یہ تماشا تو نہ لگتا۔ یہ جگ ہنسائی تو نہ ہوتی۔ ہونا تو یہ چاہئیے تھا کہ ہمارے آرمی چیف کی تقرری کا پروانہ سرزمین اسلام سعودی عرب سے جاری ہوتا!'

'ختم ہو گیا تیرا بک بک سے بھرپوربھاشن یا کچھ رہتا ہے؟' قلندر غضب ناک نگاہوں سے کالے رہو کو گھورتے ہوئے کہتا ہے۔ وہ چپ کر کے ایک کونے میں دبک کر بیٹھ جاتا ہے۔ پھر قلندر اپنا تان پلٹہ شروع کرتا ہے۔۔۔ایسا جو سب کو بےسُرا اور بے تالہ کر دیتا ہے۔

'ابے جاہلوں کے باپ ابوجہل کی ناجائز اولادو! تمہیں کس نے یہ بتا دیا کہ 'چوروں کا ٹبر' لندن بیٹھ کر اپنے باجوے کا جانشین چن رہا ہے؟ جبکہ تمہارا باپ (قلندر اپنی جانب اشارہ کر کے) تم سب کو پہلے ہی بتلا چکا ہے کہ لندن والی نوٹنکی کے کواکب ہیں کچھ پر نظر کچھ اور ہی آوے ہیں! تم جُہلا میرے اقوال زریں اور دانش و حکمت سے بھرپور گفتگو غور سے تو کیا سرسری طور پر بھی نہیں سنتے۔ اب سونا نہیں ہے۔ غور سے سنو۔ ابے پنکھے اب کی بار تُو جسے سوتا دیکھے، دے فوراً دو جُوت اسے!'

'جو حکم سرکار!' پنکھا کہتا ہے۔ جبکہ سب مرید قلندر سے معافی مانگتے ہیں اور وعدہ کرتے ہیں کہ آئندہ اس کے خطبے کے دوران ہرگز نہیں سوئیں گے۔

'ابے وڈا صاحب صدیوں سے لندن میں روپوش ہے۔ مگر دل لاہوری سری پاوے، مغز نہاری، نلی نہاری، گردے کپورے، ہریسہ، ملائی کباب، بوٹی، سموسے، جلیبی، بٹیر، بونگ، بادامی چھولے وغیرہ میں پھنسا ہوا ہے۔ لندن میں یہ چٹخارے کہاں! تو اس نے 'نانی' کو کہا تھا کہ سب چیزوں کی دو دو پلیٹیں لے آوے مگر وہ کچھ نہ لے کر جا سکی۔ اس غیر ذمہ داری پر اس کی سرزنش بھی ہوئی۔ شوبز شریف بہت ہی فرماں بردار بچہ ہے۔ وڈے صاحب کی اجازت لیے بنا استنجا بھی نہیں کرتا۔ تو وڈے صاحب نے شوبز کو حکم دیا کہ یہ سب چیزیں دوبارہ سے فریش بنوائے اور لندن لے کر آوے۔ دونوں بھائی مل کر اور رج کر کھائیں گے۔ اب یہ سچ تو ملکی مفاد میں نہ تھا۔ فساد پھوٹ پڑتا۔ پاٹے خان اس بات کو رائی کا پہاڑ بنا کر اپنا فرلانگ مارچ لالہ موسیٰ کے بجائے ڈائریکٹ لندن لے جاتا۔ تو ملک و عوام کی جان و مال محفوظ بنانے کے لئے باجوے کی پیشگی اجازت سے یہ ڈرامہ رچایا گیا اور یہ سچ شوبز کے منہ سے نکل ہی گیا۔ لگا تو ذرا وہ کلپ کریلے!'

کریلا حکم بجا لاتا ہے۔ کلپ میں شوبز He Fled سے باہر نکلتا ہے۔ صحافی پوچھتے ہیں؛ 'کی کرن آیا سیں سوہنیا!' تو وہ تسلیم کرتا ہے کہ سارا ٹبر ایک جگہ اکٹھا ہوا تھا اور سب نے رج کر لاہوری کھابے کھائے۔

'کچھ پڑا پلّے! شوبز نے تو اتنا کھایا کہ بیمار پڑ گیا۔ اور سٹے کرنا پڑا لندن میں۔ یار لوگوں نے غلط مطبل لے لیا!'
قلندر کہتا ہے اور سب مرید سجدہ شکر بجا لاتے ہیں کہ پاک فوج کے سپہ سالار کی تعیناتی ابھی تک امریکہ بہادر ہی کے ہاتھ میں ہے! لیکن ریشماں کو یہ بات ہضم نہیں ہوتی۔ قلندر کی منہ چڑھی ہے۔ بول ہی پڑتی ہے۔
'پر آپ کو یہ سب کیسے پتہ چلا!'

"تُو بھی فل ٹائم چوّل ہے ریشماں۔ نہیں سنتی غور سے! کہا بھی تھا تجھے تیرے پہلے سوال کے جواب میں کہ میں کہاں غائب تھا، اس کا جواب بعد میں دوں گا۔ پر صبر نہیں ہے مزاج میں پاٹے خان کی طرح! میں لندن میں تھا اور یہ نوٹنکی میرے پکا ڈیلی والے آستانے پر ہو رہی تھی کیونکہ He Fled کے باہر تو 24 گھنٹے 'سارا ٹبر چور ہے' والہ پلٹہ گونجتا ہے اور باجوہ بھی سری پاوے پارٹی پر مدعو تھا۔ تو کیا دو شریف آدمی، یعنی باجوہ اور میں، سکون سے کھانا بھی نہ کھا سکیں؟' قلندر اپنی بات ختم کرتا ہے اور سارا آستانہ نعرہ بلند کرتا ہے؛ 'باجوہ قلندر ساڈا شیر اے، باقی ہیر پھیر اے!'"

Contributor

محمد شہزاد اسلام آباد میں مقیم آزاد صحافی، محقق اور شاعر ہیں۔ انگریزی اور اردو دونوں زبانوں میں لکھتے ہیں۔ طبلہ اور کلاسیکی موسیقی سیکھتے ہیں۔ کھانا پکانے کا جنون رکھتے ہیں۔ ان سے اس ای میل Yamankalyan@gmail.com پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔