پی ٹی آئی میں ایک بھی فرد نہیں جو ارشد شریف کیس کی نمائندگی کر سکے: شوکت عزیز صدیقی

پی ٹی آئی میں ایک بھی فرد نہیں جو ارشد شریف کیس کی نمائندگی کر سکے: شوکت عزیز صدیقی
سابق  چیف جسٹس (ر) شوکت عزیز صدیقی نے بغیر نام لیے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ پارٹی گلی گلی چوراہوں پر مقتول صحافی ارشد شریف کا نام تو استعمال کر رہی ہے لیکن اس کی قانونی ٹیم میں ایک بھی فرد نہیں تھا جو اس کی نمائندگی کر سکے۔

ریٹائرڈ چیف جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے حال ہی میں سینئر اینکر سید طلعت حسین کے پروگرام 'ریڈ لائن' میں صحافی ارشد شریف کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ارشد شریف کا کیس انہوں نے اپنے ہاتھوں میں لے لیا ہے۔  یہ فیصلہ ان حالات میں لیا کہ جب پورے پاکستان میں کسی نے بھی ان کا ساتھ دینے کے لئے آگے نہیں بڑھا۔

انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ میں نہیں جانتا کہ لوگوں کی میرے بارے میں کیا رائے ہے لیکن میں بہت جذباتی ہوں اور جب میں نے وہ ٹویٹ پڑھی میری آنکھوں سے آنسو نکل آئے۔ ایک شخص جس کی اتنی زیادہ فالوئنگ ہے۔ جس نے ایک پارٹی کے لئے اپنا سب کچھ قربان کر دیا۔ اس پارٹی کے پاس اتنی بڑی لیگل ٹیم موجود ہے لیکن کوئی ایک فرد بھی نہیں ہے جو اس نظام میں اس کے لئے کھڑا ہو سکے۔

شوکت عزیز نے کہا کہ میں نے اپنے آپ کو پیش کیا ہے۔ الحمداللہ ان کی والدہ، اہلیہ، اور ایک خالہ جو ریٹائرڈ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ہیں، ان کے بچے، تمام نے یہی کہا کہ آپ کو اللہ تعالٰی نے ہماری مدد کے لئے بھیجا ہے۔

اینکر طلعت حسین نے ان سے سوال کیا کہ کیا وہ ارشد شریف کی فیملی سے کوئی فیس لے رہے ہیں؟ جس پر ان کا کہنا تھا کہ نہیں بالکل بھی نہیں۔ انہوں نے بہت اصرار کیا لیکن میں نے ان کو بولا سب کا اپنا اپنا طریقہ کار ہوتا ہے فیس لینے کا تو میرے فیس یہی ہے کہ میرے لئے دعا کر دیجیے۔

https://twitter.com/ShaukatAzizSid1/status/1628117527850283008?s=20

13 فروری کو سپریم کورٹ کو آگاہ کیا گیا کہ کینیا کے حکام قتل کی تحقیقات کرنے والی ٹیم تک رسائی نہیں دے رہے ہیں۔

عدالت نے کیس کی ازخود  نوٹس  کی سماعت دوبارہ شروع  کرتے ہوئے یہ ریمارکس دیے۔  چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس محمد علی مظہر پر مشتمل پانچ رکنی بینچ کیس کی سماعت کررہا ہے۔

قبل ازیں عدالت عظمیٰ میں 592 صفحات پر مشتمل فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ پیش کی گئی میں  جس میں بتایا گیا تھا کہ  یہ ایک  منصوبے کے تحت منظم " ٹارگٹڈ قتل" تھا جس میں مبینہ طور پر "بین الاقوامی کردار" شامل تھے۔

تفتیش کاروں نے یہ بھی کہا تھا کہ یہ رپورٹ کینیا کی پولیس کے اس موقف کو مسترد کرتی ہے  کہ موت "غلطی سے شناخت کا معاملہ" تھا۔