القادر ٹرسٹ کیس: عمران خان کی 2 ہفتوں کے لیے عبوری ضمانت منظور

القادر ٹرسٹ کیس: عمران خان کی 2 ہفتوں کے لیے عبوری ضمانت منظور
اسلام آباد ہائیکورٹ نے القادر ٹرسٹ کیس میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان کو 2 ہفتے کے لیے عبوری ضمانت منظور کر لی۔

جسٹس میاں گل حسن اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز پر مشتمل دو رکنی بینچ  نے درخواست کی سماعت کی۔ القادر ٹرسٹ سے متعلق کیس میں عمران خان کی درخواست ضمانت میں چیئرمین نیب کو فریق بنایا گیا۔

چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیش ہوئے۔ ڈپٹی پراسیکیوٹرجنرل نیب سردارمظفر چیف جسٹس کی عدالت میں موجود تھے۔

عمران خان کی اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیشی کے باعث عدالت کے اطراف سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے پچھلے دروازے کو سیل کردیا ہے اور دو دروازوں پر سکیورٹی کےانتہائی سخت انتظامات ہیں۔

چیئرمین تحریک انصاف عمران خان پولیس لائنز گیسٹ ہاؤس سے عدالت میں پیشی کیلئے روانہ ہوئے اور ان کے قافلے کی سکیورٹی کے انتظامات ڈی آئی جی آپریشنز دیکھ رہے تھے۔

عدالت پہنچنے کے بعد عمران خان ڈائری برانچ میں گئے جہاں ان کا بائیو میٹرک کیا گیا۔

القادر ٹرسٹ کیس میں عمران خان کی درخواست ضمانت پر وقفے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی۔ عدالت کی جانب سے عمران خان کو 2 ہفتوں کے لیے عبوری ضمانت دے دی گئی۔

علاوہ ازیں عمران خان کی جانب سے عدالت سے کسی بھی کیس میں گرفتاری کے لیے ضمانت کی استدعا کی جس کو منظور کرتے ہوئے عدالت نے 17 مئی تک عمران خان کو کسی بھی نئے مقدمے میں گرفتار کرنے سے روک دیا گیا۔

سماعت کا احوال

عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے حفاظتی ضمانت کی درخواست پر دلائل دیے۔ خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ ہم ضمانت کی درخواست دائر کر رہے تھے جب گرفتاری ہوئی۔عمران خان کو 9 مئی کو بائیو میٹرک برانچ سے گرفتار کیا گیا۔ جس طرح القادر ٹرسٹ کی انکوائری کو اچانک انویسٹیگیشن میں تبدیل کیا گیا اس کا مقصد تھا عمران خان کو فوری گرفتار کریں۔انکوائری میں اگر مٹیریل ہو نیب تب ہی انکوائری کو انویسٹیگیشن میں تبدیل کر سکتا ہے۔

خواجہ حارث نے کہا کہ نیب نے اس کیس میں ہمیں سوال نامہ بھی نہیں بھیجا تھا بلکہ صرف کچھ معلومات مانگی تھیں۔ توشہ خانہ کیس میں بھی اسی طرح مجھے نوٹس بھیجا گیا تو میں نے اسی عدالت میں چیلنج کیا تھا اور اسی عدالت نے ان نوٹسز کو غیر قانونی قرار دیا تھا۔

خواجہ حارث نے اپنے دلائل میں کہا کہ نیب ترمیمی ایکٹ کے تحت انکوائری رپورٹ شیئر کرنا لازم ہے۔ انکوائری رپورٹ دی جاتی تو ہم اسے چیلنج بھی کرتے۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کا استفسار کیا کہ انکوائری رپورٹ آپ کو دی ہی نہیں گئی؟ خواجہ حارث نے جواب دیا کہ گرفتاری سے پہلے تک کوئی انکوائری رپورٹ نہیں دی گئی۔

عدالت نے استفسار کیا کہ یہ انکوائری انویسٹی گیشن میں تبدیل کب ہوئی؟ خواجہ حارث نے جواب دیا کہ نیب کے مطابق 28 اپریل کو انکوائری انویسٹی گیشن میں تبدیل کی گئی۔

ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے عمران خان کی ضمانت کی درخواست پر اعتراض اٹھایا اور مؤقف پیش کیا کہ کوئی ٹھوس وجہ نہیں بتائی گئی کہ اس عدالت سے کیوں رجوع کیا گیا۔ احتساب عدالت اس کورٹ سے بالکل قریب ہے۔ یہ نیب کا کیس ہے احتساب عدالت میں سنا جاسکتا ہے۔

ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے مؤقف اختیار کیا کہ اس وقت آرٹیکل 245 نافذ العمل ہے۔ اس آرٹیکل کے نافذ العمل ہونےکے بعد ہائی کورٹ کا دائرہ اختیارنہیں۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ ایڈووکیٹ جنرل کیا یہاں مارشل لاء لگ گیا ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے نے نیب کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کرلیا، اور عمران خان کی ضمانت منظور کرلی۔ عمران خان کی ضمانت 2 ہفتے کیلئے منظور کی گئی ہے۔

اس سے قبل دوران سماعت کمرہ عدالت میں وکلا کی نعرے بازی پر بینچ نے برہمی کا اظہار کیا۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایسارویہ اپنایا گیا تو سماعت نہیں ہوگی۔ یہ کوئی طریقہ نہیں۔مکمل خاموشی ہونی چاہیے۔ سیکیورٹی اہلکاروں نے نعرے لگانے والے وکیل کوکمرہ عدالت سے باہرنکال دیا۔

بعد ازاں عدالت نے سماعت میں نماز جمعہ کا وقفہ کردیا۔ عمران خان کیس کی سماعت کیلئے ڈھائی بجے کا وقت مقرر کردیا گیا۔

دوسری جانب ترجمان اسلام آباد پولیس کا کہنا ہےکہ عدالتی حکم کے مطابق گزشتہ شب عمران خان سے 10 افراد نےملاقات کی جن میں صدر مملکت، وزیراعلیٰ گلگت بلتستان، ڈاکٹر فیصل اور 7 7 رکنی قانونی ٹیم نے بھی عمران خان سے ملاقات کی تھی۔

سپریم کورٹ کاگزشتہ روز کا تحریری فیصلہ

عمران خان گرفتاری کیس سے متعلق سپریم کورٹ کا تحریری فیصلہ جاری کردیا گیا۔

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ عمران خان کی گرفتاری سے ان کے بنیادی حقوق متاثر ہوئے۔ گرفتاری کا عمل عدلیہ کی عزت کے بھی خلاف تھا ۔ عمران خان کو خود کو عدلیہ کے سامنے سرنڈر کرچکے تھے۔ وارنٹ کی تکمیل کے دوران عدلیہ کے احترام کا خیال رکھا جائے۔ عمران خان کو 11 بجے ہائیکورٹ میں پیش کیا جائے۔ رجسٹرار سپریم کورٹ عمران خان کی پیشی کو یقینی بنائیں۔

تحریری فیصلے میں پولیس سے کہا گیا ہے کہ عمران خان کی سیکیورٹی کو یقینی بنایا جائے۔ ہائیکورٹ میں پیشی تک عمران خان پولیس لائنز گیسٹ ہاؤس میں قیام کریں گے ۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ القادر ٹرسٹ کیس کی کارروائی پر اثر انداز نہیں ہوگا۔