اسلام آباد پولیس کی حراست میں تشدد سے مبینہ طور پر 15 سالہ افغان نوجوان جاں بحق

اسلام آباد پولیس کی حراست میں تشدد سے مبینہ طور پر 15 سالہ افغان نوجوان جاں بحق
اسلام آباد کے تھانہ لوہی بھیر پولیس کی حراست میں مبینہ طور پر گزشتہ روز پندرہ سالہ افغان نوجوان خان شیرین جاں بحق ہوگیا۔

تفصیلات کے مطابق اسلام آباد پولیس نے دو روز پہلے خان شیرین نامی نوجوان کو ڈکیتی کی مبینہ ورادت میں حراست میں لیا تھا اور گزشتہ روز حوالات میں اس کی موت واقع ہوئی۔

تفصیلات کے مطابق خان شیرین افغان شہری تھا اور پشاور میں رہائش پذیر تھا. وہ آٹھ بہن بھائیوں میں دوسرے نمبر پر تھے اور گھر کا واحد کفیل تھا۔ان کے والد جان محمد کچھ عرصہ پہلے ایک حادثے میں ایک پاؤں سے معذور ہوگئے جس کے بعد مقتول خان شیرین نے گھر کی کفالت کی زمہ داری اٹھائی اور راولپنڈی میں محنت مزدوری کرنی شروع کی۔


تھانہ لوہی بھیر پولیس کے مطابق ملزم کو ڈکیتی کے مقدمہ میں گرفتار کیا تھا جس نے متعدد وارداتوں کا انکشاف کیا تھا اور دوران حراست ملزم نے اپنے شلوار سے ازار بند نکال کر خود کشی کی۔

 پولیس کے مطابق محرر نے بروقت ملزم کو خود کشی کرتے دیکھ لیا اور ملزم کو حوالات سے نکال کر ہپستال منتقل کیاگیا لیکن ملزم راستے میں ہی جان کی بازی ہار گیا۔

گزشتہ روز سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیوز میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ایک ایمبولینس کے آگے اور پیچھے اسلام آباد پولیس کی گاڑیاں ہے اور ویڈیو میں نظر آنے والے اہلکار دعویٰ کررہے ہیں کہ اسلام آباد پولیس ان کو زبردستی ضلع بدر کررہی ہے۔


اسلام آباد پولیس کے ایک اہلکار کے مطابق جس مقدمہ میں پولیس نے مذکورہ ملزم کو گرفتار کیا وہ مقدمہ افتخار علی کی مدعیت میں درج ہوا لیکن مدعی کی طرف سے نامعلوم ملزمان کیخلاف ڈکیتی کی واردات کا اندراج کروایا گیا تھا۔

اسلام آباد پولیس کا دعویٰ ہے کہ ان کو پی ڈبلیو ڈی روڈ پر ڈکیتی کرنے کے دوران دیگر ساتھیوں سمیت رنگے ہاتھوں گرفتار کیا گیا تھا اور وہ حوالات میں زیر تفتیش ہی تھے کہ انھوں نے خودکشی کی۔ جبکہ مقتول کے خاندان کے مطابق ان کو تشدد کرکے مارا گیا تھا اور ان کے بدن پر تشدد کے گہرے نشانات تھے۔


مقتول خان شیرین کے ایک رشتہ دار یونس خان نے پشاور سے نیا دور میڈیا کو بتایا کہ خان شیرین چھ بھائیوں میں سب سے بڑا تھا اور ان کے والد ایک پاؤں سے معذور تھے اور محنت مزدوری کے قابل نہیں تھے۔ یونس کے مطابق مقتول خان شیرین گھر کی کفالت کی عرض سے راولپنڈی میں راجہ بازار میں دیہاڑی اور جوتے پالش کرنے کا کام کرتے تھے اور مہینے کی بنیاد پر گھر خرچہ بھیجتے تھے۔


مقتول کے والد جان محمد کے مطابق ان کے گھر کا واحد کفیل چھین لیا گیا اور پولیس نے اس پر بے تحاشہ تشدد  کر کے اسےقتل کردیا۔ مقتول کے والد کے مطابق پولیس نے بتایا کہ آپ کے بیٹے نے خودکشی کی ہے لیکن جو ویڈیو دیکھائی گئی اس میں چہرہ نظر نہیں آرہا اور مجھے ایسے لگا کہ میرے بچے کے کپڑے نکال کر کسی بچے کو پہنائے گئے تھے اور ان کی ویڈیو بنائی گئی تھی۔ مقتول کے والد نے کہا کہ آج میں نے پشاور میں اپنے گھر کے واحد کفیل کو دفنا دیا اور میری زندگی ختم ہوئی۔

پولیس کے مطابق مقتول کا پوسٹ مارٹم اسلام آباد کے پمز ہسپتال سے کروایا گیا۔

نیا دور میڈیا نے پمز ہسپتال کے ترجمان ڈاکٹر وسیم خواجہ سے رابطہ کیا اور پمز ہسپتال کے ترجمان وسیم خواجہ نے رابطہ کرنے پر جواب دیا کہ ان کو اس واقعے کا کوئی علم نہیں۔

نیا دور میڈیا نے اس واقعے پر موقف لینے کے لئے ایس ایس پی آپریشن اور اسلام آباد پولیس کے ترجمان ڈاکٹر سید مصطفی تنویر سے رابطہ کیا مگر انھوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔

عبداللہ مومند اسلام آباد میں رہائش پذیر ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔