کون سی قوتیں پاکستان کو توڑنا چاہتی ہیں، آصف زرداری عوام کو آگاہ کریں: افتخار احمد

کون سی قوتیں پاکستان کو توڑنا چاہتی ہیں، آصف زرداری عوام کو آگاہ کریں: افتخار احمد
افتخار احمد نے کہا ہے کہ میں سابق صدر آصف علی زرداری کو ایک ذمہ دار آدمی سمجھتا ہوں، ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس سازش کے خدوخال سے عوام کو آگاہ کریں کہ وہ کون سی قوتیں ہیں جو پاکستان کو توڑنا چاہتی ہیں۔ یہ ایک بہت سنجیدہ معاملہ ہے جس کی جانب انہوں نے نشاندہی کی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ گذشتہ روز سابق صدر زرداری نے اپنے خطاب میں غیر سیاسی باتیں کیں۔ جس شخص کے بارے میں انہوں نے کہا کہ وہ پاکستان میں دفن ہونا پسند نہیں کرتا، سب سے پہلے وہی محترمہ بینظیر کی شہادت کے بعد ہسپتال پہنچا تھا۔

نیا دور ٹی وی کے پروگرام ''خبر سے آگے'' میں گفتگو کرتے ہوئے افتخار احمد نے کہا کہ سابق صدر ایسی باتیں نہ کریں کہ صرف وہی پاکستان سے محبت کرتے ہیں۔ زرداری نے جب '' پاکستان کھپے'' کا نعرہ لگایا، اس وقت ساری پنجابی قیادت وہاں موجود تھی۔ انہوں نے ''وصیت'' کو صحیح مانا اور ان کا ساتھ دیا۔ وہ وہاں یہ نعرہ لگانے والے اکیلے شخص نہیں تھے۔

انہوں نے کہا کہ اگر پاکستان کے ٹکڑے کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے اور یہ بات زرداری کے علم میں ہے تو انھیں چاہیے کہ قوم کو اس سے آگاہ کردیں تاکہ ہم بطور پاکستانی ان کیساتھ مقابلہ کرنے کیلئے ڈٹ جائیں۔

ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی کو اس کے نظریات کی جانب واپس لانا بہت مشکل ہو چکا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے عوام کو جو سیاست سکھائی تھی، وہ ختم ہو چکی ہے، اب سیاست سرمایہ داروں کے پاس ہے۔

افتخار احمد نے کہا کہ مجھے لگا تھا کہ بلاول بھٹو پارٹی کو آگے لے کر چلیں گے اور زرداری بطور اتالیق ہی اپنی ذمہ داریاں نبھائیں گے لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ نئی نسل کو بلاول کی لیڈ کر سکتا تھا۔ ان کی جماعت میں تو آصف زرداری کی بات سے کوئی اختلاف بھی نہیں کر سکتا۔

این اے 133 کے ضمنی الیکشن کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے افتخار احمد نے کہا کہ پی ٹی آئی امیدواروں کے کاغذات نامزدگی مسترد ہونا جبکہ ٹی ایل پی اور طاہر القادری کا مقابلے میں حصہ نہ لینے سے انتخاب کے نتائج پر اثر پڑا۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ پیپلز پارٹی کی جانب سے کس خوشی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ کسی پولنگ سٹیشن پر تو کانٹے دار مقابلہ تک نہیں ہوا۔ پورے حلقے میں صرف 17 فیصد ووٹ پڑے۔

ان کا کہنا تھا کہ موجودہ صورتحال میں مسلم لیگ (ن) کو صوبہ پنجاب میں شکست دینا بہت مشکل نظر آ رہا ہے۔ اگرچہ ٹی ایل پی اس پوزیشن میں ہے کہ انھیں 7 سے 8 حلقوں میں ٹف ٹائم دیدے۔

انہوں نے کہا کہ جب نظریات نہ ہوں اور مقصد صرف عمران خان کو فارغ کرنا ہو تو پھر ایسے ہی الیکشن ہونگے۔ مبینہ طور پر این اے 133 میں کم از کم 14 کروڑ روپے لگے۔ یہ تو ڈی ایچ اے کے ایک پلاٹ کی قیمت ہے۔ پاکستان میں اصول کی سیاست ختم ہو چکی ہے، کوئی بھی رئیل سٹیٹ کا مالک اپنے بندے پارلیمنٹ میں منتخب کرا سکتا ہے۔

سانحہ سیالکوٹ پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ توہین رسالت یا توہین مذہب کے مرتکب کی سزا کا آئین اور قانون میں تعین کیا جا چکا ہے۔ لوگوں کو یہ حق نہیں کہ وہ اپنے ہاتھ میں قانون کو لیں۔ گذشتہ دنوں فیصل آباد میں بھی خواتین کو برہنہ کرکے تشدد کا نشانہ بنایا گیا، یہ کس قسم کا حق ہے۔

مرتضیٰ سولنگی کا کہنا تھا کہ عمران خان نے جو آج بھڑک ماری، اس کے پیچھے ان کے پاس کیا طاقت ہے؟ آپ کے معاشرے کی سوچ سیالکوٹ واقعے میں ملوث نوجوانوں یا وزیر دفاع پرویز خٹک کی باتوں سے ظاہر ہوتی ہے۔ اس مقصد کیلئے یا تو سوسائٹی آپ کے ساتھ ہو یا ریاستی ادارے یکسو ہوں۔ اس ملک میں نیشنل ایکشن پلان کو تو دفن کر دیا گیا ہے۔