'شیخ مجیب الرحمان بنگلا دیش نہیں، متحدہ پاکستان کے وزیراعظم بننا چاہتے تھے'

'شیخ مجیب الرحمان بنگلا دیش نہیں، متحدہ پاکستان کے وزیراعظم بننا چاہتے تھے'

ڈاکٹر یعقوب بنگش نے کہا ہے کہ شیخ مجیب الرحمان کے 6 نکات کا مقصد ہی یہ تھا کہ پاکستان ایک رہے۔ وہ بنگلا دیشن کے نہیں بلکہ متحدہ پاکستان کے وزیراعظم بننا چاہتے تھے۔


ان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ پاپولر مشرقی پاکستان میں ہوئی، وہیں سے اس جماعت نے پہلا الیکشن جیتا۔ شیخ مجیب کی خواہش ہی نہیں تھی کہ علیحدہ ہوا جائے لیکن بدقسمتی سے انھیں ایسا کرنے پر مجبور کیا گیا۔


نیا دور ٹی وی کے پروگرام ''خبر سے آگے'' میں سقوط ڈھاکہ پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹر یعقوب بنگش کا کہنا تھا کہ 1970ء کے انتخابات میں ذوالفقار علی بھٹو نے نہیں بلکہ شیخ مجیب الرحمان نے کلین سوئپ کیا تھا۔ شیخ مجیب نے 160 جبکہ بھٹو نے صرف 81 نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔


انہوں نے کہا کہ اسمبلی میں 55 فیصد نشستیں حاصل کرنے کے بعد شیخ مجیب الرحمان کا یہ حق تھا کہ وہ متحدہ پاکستان کے وزیراعظم بنتے لیکن ملٹری لیڈرشپ نے کہا کہ انھیں یہ عہدہ نہیں دیا جا سکتا، ان کو پہلے بات چیت کرنا پڑے گی۔ دوسری جانب ذوالفقار علی بھٹو درمیان میں آئے اور خود کو مغربی پاکستان کا لیڈر بنا کر پیش کرنا شروع کر دیا۔


ڈاکٹر بنگش کا کہنا تھا کہ حالانکہ مغربی پاکستان تو تھا ہی نہیں یہاں تو چار صوبے تھے۔ بھٹو نے صرف پنجاب اور سندھ سے زیادہ سیٹیں حاصل کی تھیں لیکن صوبہ سرحد (خیبر پختونخوا) اور بلوچستان سے وہ اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہے تھے۔


انہوں نے بتایا کہ کہ یحییٰ خان اور ذوالفقار علی بھٹو کا مطالبہ تھا کہ شیخ مجیب الرحمان اپنے 6 نکات سے کو چھوڑ دیں لیکن یہ ایک مضحکہ خیز بات تھی کیونکہ انہوں نے الیکشن ہی اسی بنیاد پر لڑا تھا۔ وہ کہتے تھے کہ جس منشور پر میں نے الیکشن میں حصہ لیا، اسی کو فالو کروں گا کیونکہ اسی کیلئے عوام نے مجھے ووٹ دیا ہے۔


ڈاکٹر طارق رحمان کا کہنا تھا کہ بنگالیوں میں اصل معاملہ زبان کا نہیں تھا۔ وہ کہتے تھے کہ آزادی کے بعد کیا بدلا؟ انگریز کے بعد اور لوگ آ کر ہم پر مسلط ہو گئے۔ دوسرا وہ یہ سمجھتے تھے کہ پٹ سن کی فروخت ہم کرتے ہیں لیکن اس سے حاصل ہونے والا تمام پیسہ مغربی پاکستان میں لگا دیا جاتا ہے۔ تیسری بات جو بنگالیوں کے دل میں گھر کر چکی تھی کہ یہ لوگ ہمیں کم تر سمجھتے ہیں۔ انھیں چھوٹا، کالا اور بنگو کہنا عام بات بن چکی تھی۔ زبان کے زخم سب سے کارگر ہوتے ہیں جنھیں کبھی ٹھیک نہیں کا جا سکتا۔ بنگالی زبان تو ایک سمبل تھا لیکن اس کے پیچھے چھپے یہ تلخ حقائق تھے۔


ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کا کہنا تھا کہ 1947ء کے بھوتوں کا تو بہت ذکر کرتے ہیں لیکن 1971ء کے بارے میں ہمارے ہاں مکمل خاموشی ہے۔ ہمیں ایسا خاموشی کا حکم صادر ہوا کہ ہم نے کبھی اس پر بات ہی نہیں کی۔ پاکستان جو ملک بننے چلا تھا وہ ایک سٹیٹ نیشن تھی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بہت زیادہ اقوام ایک ریاست میں رہ رہی تھیں۔ ان کے کلچر، ان کی زبان کی پذیرائی ہونی چاہیے تھی لیکن ایسا نہ ہو سکا۔


افراسیاب خٹک کا کہنا تھا کہ ہماری بیوروکریسی نے 1954ء سے اقتدار پر قابض تھی۔ پاکستان استعماری نظام سے نکل نہیں سکا تھا۔ غلام محمد، سکندر مرزا، ایوب خان، چودھری محمد علی اور دیگر لوگوں نے آمریت قائم کی۔ تاہم شیخ مجیب الرحمان کے چھ نکات فیڈریشن کا پروگرام تھا۔ ایسا نہیں کہ یہ نکات انہوں نے ایجاد کئے تھے۔ وہ 1940ء کی قرارداد پر مبنی فیڈریشن بنانا چاہتے تھے۔ ہمارے یہاں لوگوں نے 1940ء کی قرارداد اور 6 نکات نہیں پڑھے لیکن ان کیخلاف فتوے دینا شروع کر دیتے ہیں۔ شیخ مجیب الرحمان دفاع اور خارجہ امور مرکز کو جبکہ دیگر امور صوبوں کو دینا چاہتے تھے۔