پاکستان کا غریب آدمی ذلیل وخوار ہو چکا، اسٹیبلشمنٹ کو آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے کردار ادا کرنا ہوگا

پاکستان کا غریب آدمی ذلیل وخوار ہو چکا، اسٹیبلشمنٹ کو آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے کردار ادا کرنا ہوگا
سینئر صحافی افتخار احمد نے کہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اگر وقت سے پہلے حکومت کو تبدیل کرانے میں کردار ادا کر سکتی ہے تو اسے آئین کے اندر رہتے ہوئے یہ بات شروع کر دینی چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ اسٹیبشلمنٹ کو کھل کر کہنا چاہیے کہ ملک معاشی طور پر بحران کا شکار ہو چکا۔ ہمیں بہت سے گھمبیر مسائل کا سامنا ہے۔ ملک کے اندر غیر سیاسی صورتحال اپنی نہج کو پہنچ چکی ہے۔ بہتر یہی ہے کہ ہم ایسے الیکشن میں چلے جائیں جس پر سب کو اعتماد ہو۔

نیا دور ٹی وی کے پروگرام ''خبر سے آگے'' میں گفتگو کرتے ہوئے افتخار احمد نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان اور آرمی چیف کے دورہ نوشکی کے دوران، دونوں شخصیات کی باڈی لینگوئج پر تبصرے کئے جا رہے ہیں۔ سمجھنے کی کوشش کی جائے کہ کیا میسجز دیئے جا رہے ہیں۔ جو رویہ پیدا کیا جا رہا ہے اس کا نقصان ادارے کو ہوگا، افراد آئے ہیں، چلے جائیں گے۔ یہ ادارے کو خود سوچنا چاہیے یہ بہت سنجیدہ معاملہ ہے۔

ملک میں جاری تحریک عدم اعتماد کی قیاس آرائیوں پر ان کا کہنا تھا کہ یہ صرف اس وقت کامیاب ہوگئی، جب اتحادی جماعتوں کو سمجھ آ جائے گی کہ پاکستان کا غریب آدمی ذلیل وخوار ہو چکا ہے۔ وہ کسی صحت کارڈ، کسان پروگرام یا احساس پروگرام پر زندہ نہیں رہ سکتا۔ اس کو تعلیم، عزت اور روزگار چاہیے۔

افتخار احمد کا کہنا تھا کہ جس تعیناتی کی کہانی وزیراعظم عمران خان نے شروع کی تھی وہی ملک میں جاری بحثوں کی وجہ بن رہی ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ ابھی نہیں بلکہ وقت آنے پر ہی میں یہ فیصلہ کروں گا۔

تحریک عدم اعتماد کے معاملے پر بات کرتے ہوئے رضا رومی کا کہنا تھا کہ اگر عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان انڈر سٹینڈنگ برقرار ہوئی تو تحریک عدم اعتماد کی ضرورت ہی پیش نہیں آئے گی۔ حکومت اپنی مدت پوری کرے گی اور سب ہی راضی ہونگے۔

تاہم انہوں نے کہا کہ یہاں پر ایک سوال پیدا ہوتا ہے، وہ یہ کہ اسٹیبشلمنٹ پر حکومتی کارکردگی کی وجہ سے جو تنقید ہوئی ہے، کیا ان میں حوصلہ موجود ہے کہ وہ اسے مزید برداشت کریں۔

الیکشن کمیشن کی جانب سے پی ٹی آئی کے رہنما فیصل واوڈا کی نااہلی بارے بات کرتے ہوئے رضا رومی نے کہا کہ اس فیصلے سے صادق اور امین حکومت کا بیانیہ پٹ گیا ہے کیونکہ ان کو سینیٹ میں لانے والے خود عمران خان تھے۔ اب لوگ سوالات اٹھا رہے ہیں کہ اگر عمران خان کو اس بات کا علم تھا تو ایسا کیوں کیا گیا؟

افتخار احمد کا کہنا تھا کہ فیصل واوڈا کسی کے لاڈلے تھے یا نہیں، یہ الگ بات ہے۔ مجھے افسوس اس بات کا ہے کہ الیکشن کمیشن کو اتنا عرصہ صرف یہ جاننے میں لگا کہ انہوں نے جھوٹی دستاویزات جمع کرائی تھیں۔

ان کا کہنا تھا کہ لوگ جب ہماری ریاست کو بنانا ری پبلک کہتے ہیں تو مجھے بہت دکھ ہوتا ہے لیکن جب ایسی چیزیں دیکھتا ہوں تو مجھے غصہ آتا ہے۔ ایک سادہ سی بات ہے کہ ایک آدمی نے دستاویزات دیں، جس کے بارے میں آپ جانتے ہیں کہ وہ غلط تھیں تو اس پر فیصلہ کرنے میں اتنا وقت کیوں لیا گیا۔

انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا اس سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ اشاروں پر ہی فیصلے کئے جاتے ہیں۔ ایسے اقدامات سے اداروں کی توہین ہوتی ہے۔ انصاف وہی ہے جو بروقت ہو۔ اگر فیصل واوڈا کے بارے فیصلہ ہوگیا ہوتا تو پاکستان کی آج سیاسی تاریخ ہی اور ہوتی۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر سپریم کورٹ بھی فیصل واوڈا کا معاملہ اگلے انتخابات تک لٹکا دے تو پھر ایک ایسا آدمی سینیٹ میں بیٹھا رہے گا جس کو آئین کا ایک آرٹیکل اس قابل نہیں سمجھتا کہ وہ ووٹ ڈالنا تو دور کی بات بلکہ اس کی کارروائیوں تک میں بھی حصہ لے۔ ہمارے عدالتی نظام کو اس بارے میں غور سے سوچنا چاہیے۔

افتخار احمد نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے پاس اتنا بڑا معاملہ پڑا ہوا ہے جو بغیر تحریک عدم اعتماد، لانگ مارچ اور دھرنے کے پاکستان کی تاریخ کو تبدیل کرکے رکھ سکتا ہے۔